مغربی اقوام، دوست اقوام
نزول قرآن کے زمانے میں انسانی تاریخ جس مرحلے میں تھی، اس کے لحاظ سے اہل ایمان کو یہ فارمولا بتایا گیا کہ اگر کوئی بظاہرتم کو دشمن نظر آئے تو اس کے ساتھ تم ردعمل کا سلوک نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر حسن سلوک کا طریقہ اختیار کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن تمھارا دوست بن جائے گا(فصلت34:)۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک کا یہ طریقہ ایک وقتی تدبیر کا طریقہ تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسا عمل (process) جاری کیا ، جس کے نتیجے میں دنیا ایک نئے دور (age) میں داخل ہوگئی، جب کہ قومیں خود حالات کے تقاضے کے تحت عملاً اسلام کی مؤید (supporter) بن گئیں۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انوکھا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پیشگی خبر پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو دے دی تھی۔ یہ روایت حدیث کی اکثر کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر انسان کےذریعہ کرے گا۔ یہاں غالباً فاجر کا لفظ اپنےلغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ فاجر انسان کا مطلب ہے سیکولر انسان۔ غیر مسلم اقوام کے ذریعہ اسلام کی تائید کی پیشین گوئی سب سے زیادہ مغربی اقوام پر صادق آتی ہے۔
مغربی اقوام نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ جو مادی تہذیب برپا کی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے پوری طرح مؤید اسلام تہذیب ہے۔ مغربی اقوام کا مؤید اسلام ہونا، عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اس امکان کو جانیں، اور اس کو اویل (avail) کریں۔
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تمثیل کے ذریعہ حقیقتوں کو واضح کرتا ہے (البقرۃ26:)۔ چناں چہ اس معاملے میں اللہ نے ایک تاریخی مثال کے ذریعہ اہل ایمان کو بتایا کہ کس طرح مخالف قوم کو موافق قوم بنایا جاسکتا ہے۔ یہ مثال جاپان کی ہے، جو کہ بیسویں صدی میں پیش آئی۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جاپان کی سیکولر مثال کو اسلامائز کریں، اور اس کو اپنے حالات پر منطبق کریں۔
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) سے پہلے جاپان میں امریکوفوبیا (Americophobia) کا غلبہ تھا۔ جاپانی قوم بطور خود امریکا کو اپنا دشمن سمجھتی تھی۔ جاپان کا امریکی فوبیا اتنا بڑھا کہ غالباً تاریخ میں پہلی بار جاپانی نوجوانوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے 1941 میں امریکا کے بحری اڈہ (پرل ہاربر) کو خود کش بمباری کے ذریعہ تباہ کردیا۔ اس کے بعد امریکا میں انتقامی جذبہ بھڑکا۔ انھوں نے 1945 میں جاپان کے دو شہروں(ہیروشیما، ناگاساکی) پر ایٹم بم گرائے۔ یہ اتنا شدید حملہ تھا کہ اس کے بعد جاپان کے لیے لڑائی کا آپشن (option) باقی نہ رہا۔
تاہم مختلف اسباب کے تحت جاپانی قوم نے اپنے آپ کو منفی رد عمل (reaction) سے بچایا۔انھوں نے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچا تو وہ اس دریافت تک پہنچے کہ امریکا نہ کسی کا دشمن ہے، نہ کسی کا دوست۔ امریکا کا فارمولاصرف ایک ہے، اور وہ اس کا سیلف انٹرسٹ ہے۔ چناں چہ امریکا میں کہا جاتا ہے:
The business of America is business
چناں چہ جاپان نے یہ فیصلہ کیا کہ امریکا کو اپنا دوست ملک بنالیں تو امریکا بھی ہمیں اپنا دوست ملک بنالے گا۔ اس کے بعد جاپان نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے امریکا سے نزاع کی پالیسی کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا۔ اس پالیسی نے جاپان کو یہ موقع دیا کہ وہ امریکا کے سپورٹ سے اپنی قومی ترقی کا سفر نہایت تیزی کے ساتھ جاری کرسکے۔ یہ پالیسی کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ 25 سال بعد جاپان دنیا کے نقشے پر ایک نئی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ وہ اقتصادی سوپر پاور (economic super-power) کے درجے تک پہنچ گیا۔
یہ تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) اہل اسلام کی رہنمائی کے لیے ابھرا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ وہ دل سے مغرب کو اپنا دوست قرار دیں۔ اگر مسلمان ایسا کرسکیں تو بہت جلد دنیا یہ واقعہ دیکھے گی کہ مسلمان دیگر اقوام کی تائید سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی قوم بن کر ابھری ہے، جنگجو قوم نہیں بلکہ پرامن قوم کی حیثیت سے۔ پھر وہ واقعہ عالمی سطح پر پیش آئے گا، جس کا تاریخ کو لمبی مدت سے انتظار ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کی پیشین گوئی ساتویں صدی کے ربع اول میں قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔