سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن
اسلام کے لیے سائنس کا ایک کنٹری بیوشن وہ ہے جس کو نظریاتی کنٹری بیو شن کہا جاسکتا ہے۔ پچھلے تمام زمانوں میں قوموں کے اندر توہماتی طرز فکر کا رواج تھا۔ لوگوں کے اندر مبنی بر حقیقت سوچ موجود نہ تھی۔ توہماتی عقائد کے تحت لوگ طرح طرح کی بے بنیاد رائیں بنائے ہوئے تھے۔
اس کی ایک مثال گرہن کا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آسمان میں سورج گرہن یا چاند گرہن کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس معاملے میں لوگ توہماتی عقیدہ بنائے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اس قسم کا ایک واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا۔ یہ سورج گرہن تھا، جو 10 ہجری میں پیش آیا تھا۔اسی تاریخ کو پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ قدیم زمانے میں یہ مانا جاتا تھا کہ گرہن اس وقت پڑتا ہے، جب زمین پر کوئی سنگین واقعہ پیش آئے۔ چناں چہ مدینہ کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چوں کہ آج پیغمبر کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے، اس لیے یہ گرہن پڑا ہے۔
پیغمبر اسلام کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ایک خطبہ دیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں(آیتان من آیات اللہ)، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1052)۔
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خطاب میں گرہن کو خدا کی ایک نشانی (sign of God) بتایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرہن کا واقعہ کسی زمینی حادثہ کی بنا پر پیش نہیں آتا۔ بلکہ وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے ابدی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی مطالعہ کے تحت متعین طو رپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے:
An eclipse is a well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes in the vast space at a particular point in time.
یہی معاملہ شرک کا ہے۔ شرک نام ہے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش کرنا۔ اسی کو انیمزم (animism) کہا جاتاہے۔ انیمزم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہےفوق الفطری طاقت میں یقین رکھنا جو مادی کائنات کو آرگنائز کرتے ہیںاور زندگی دیتے ہیں:
The belief in a supernatural power that organizes and animates the material universe.
شرک دراصل تمام تر توہمات پر مبنی ایک عقیدہ ہے۔ اسی فکرکے تحت قدیم دنیا میں فطرت کی پرستش (nature worship) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ فطرت کے تمام مظاہر انسان کے لیے پرستش کا موضوع (subject) بن گئے۔ مثلا سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت ،وغیرہ۔قدیم زمانے میں پوری دنیا میں شرک چھایا ہوا تھا۔ اسلام کا مشن یہ تھا کہ اس توہماتی عقیدہ کا غلبہ ختم کردیا جائے۔ اصولی طور پر اسلامی تحریک نے اس کو انجام دیا۔ اسلام نے اعلان کیا کہ اس قسم کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔یہاں تک کہ دنیا میں شرک کا عقیدہ علمی طورپر ایک بے بنیاد عقیدہ بن کر رہ گیا۔
اس معاملے میں سائنس کا کنٹری بیوشن بہت اہم تھا۔ سائنس کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے مشاہداتی سطح (demonstrative level)پر ثابت کیا کہ یہ ایک غیر عقلی اور ایک بے اصل عقیدہ ہے۔ سائنس نے مشاہداتی سطح پر یہ ثابت کیا کہ پوری مادی دنیا ایٹم کا مجموعہ ہے، اور ایٹم کائنات کی مادی اکائی ہے۔ ایٹم نہ کوئی جاندار چیز ہے، اور نہ اس کے اندر کوئی فوق الفطری طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور انسان قدیم زمانے سے چاند کی پرستش کرتا تھا، کیوں کہ اس نے اس کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔ سائنس نے پہلے یہ ثابت کیا کہ چاند کوئی روشن کرہ نہیں، بلکہ وہ غیر روشن پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی سورج کی روشنی کا ریفلیکشن ہے۔ یہ نظریہ 20 جولائی 1969 کو آخری طور پر بے بنیاد ثابت ہوگیا، جب کہ امریکی اسٹرانومر نیل آرم اسٹرانگ (1930-2012) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا، اور اس پر اپنا قدم رکھ دیا۔
20جولائی1969 کی رات کو راقم الحروف کو کسی وجہ سے ایک اخبار کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت خبریں آرہی تھیں کہ کس طرح انسان چاند کی سطح پر پہنچ گیا۔ میری ملاقات ایک نیوز ایڈیٹر سے ہوئی۔ انھوں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نہایت جوش کے ساتھ کہا کہ تھریلنگ خبریں آرہی ہیں۔ میرے دماغ میں آیا کہ یہ تھریلنگ خبریں نہیں ہیں، بلکہ ایک عجیب حقیقت کے اعلان کی خبریں ہیں، وہ یہ کہ چاند کوئی دیوتا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بے جان مادہ ہے۔ یہ در اصل چاند کا خالق ہے جو چاند کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ آج شرک کا عقیدہ اصولی اعتبار سے آخری طور پر باطل ہو کر رہ گیا ہے۔