ویسٹو فوبیا
نفرتِ مغرب کے اس عمومی فتنے کو اگر ایک نیا نام دیا جائے تو وہ شاید ویسٹوفوبیا (westophobia) ہوگا ۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا سب سے زیادہ عام مائنڈ سیٹ (mindset) ہے۔ یعنی مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنا، اور ان سے نفرت کرنا۔ نفرتِ مغرب کا یہ مزاج ابتداءاً نوآبادیات (colonialism) کے پس منظر میں پیدا ہوا۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام مزاج بن گیا۔ حتی کہ آج مسلم قوم کا مطلب یہ بن گیا کہ اپنے سوا دوسری تمام قوموں سے نفرت کرنا۔ مسلمانوں کے درمیان اس نفرت کلچر (culture of hate)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ اللہ نےایسے اسباب پیدا کیے کہ مغربی قوموں نے وہ رول ادا کیا، جس کو حدیث میں تائید دین کہا گیا ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) ۔ صلیبی جنگوں کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مغربی قومیں جنگ کے میدان سے ہٹ کر تسخیر فطرت کے میدان میں آگئیں ۔یعنی انھوں نے فطرت کے ان اسرار کو دریافت کرنا شروع کیا ،جن کو قرآن میں آیات (signs) کہا گیا ہے۔ اس معاملے کی پیشین گوئی قرآن میں کردی گئی تھی۔ قرآن میں یہ بتایا گیا تھا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ آفاق و انفس کی نشانیاں بڑے پیمانے پر ظاہر ہوں گی، اور وہ حق کی اعلیٰ تبیین کا رول انجام دیں گی(فصلت53:)۔حق کی تبیین کا کام انجام پانا، اپنے آپ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ کوئی گروہ ہوگا ،جو حق کی تبیین کا یہ کام انجام دے۔ تمام قرائن یہ بتاتے ہیں کہ حق کی تبیین کا یہ کام انجام دینے والے وہی گروہ تھے، جن کو اہل مغرب کہا جاتا ہے۔رموز فطرت کی اس تسخیرکو موجودہ دور میں فطرت کے قوانین (laws of nature) کی دریافت کہا جاتا ہے۔ ان دریافتوں نے تاریخ میں پہلی بار اہل ایمان کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی صداقت کو انسان کے مسلمہ عقلی معیار کی سطح پر ثابت کریں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق کہا گیا ہے۔مگر مسلمان اس عمل کی انجام دہی میں کامل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تھا— مغرب یعنی مؤیدِ دین سے نفرت۔
مسلمان جس مغرب سے متنفر ہوگئے تھے، وہ وہی مویدِ دین تھے جن کی پیشین گوئی حدیث میں کردی گئی تھی۔ مگر نفرت کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنے حامیوں سے بے خبر ہوگئے۔مسلمانوں کے اندر مغرب کے خلاف نفرت کلچر (anti-West culture) کا مزاج اتنا زیادہ بڑھا کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکے کہ اہل مغرب وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں پیشگی طور پردین کے مؤیدین کہا گیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ایک لفظ میں ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر یہ ویسٹوفوبیا اتنا زیادہ بڑھا ہواہے کہ مسلمان صرف نفرتِ مغرب کو جانتے ہیں، وہ تائید مغرب سے بالکل بے خبر ہیں۔شاید آج کی دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملے گا، جو اس ویسٹوفوبیا یا مغرب سے نفرت کا شکار نہ ہوا ہو۔
اس کے نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ مسلمان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی محرومی کے شکار ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں ویسٹوفوبیا کی بنا پر مسلمانوں کو دو بڑے نقصان اٹھانے پڑے۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس سے بڑی کوئی محرومی مسلم امت کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا دعوتی مخاطب نہ بنا سکے۔ کیوں کہ نفرت اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں نفرت ہوگی، وہاں دعوت کا ذہن نہیں ہوگا، اور جہاں دعوت کا ذہن ہوگا، وہاں نفرت کی نفسیات ختم ہوجائے گی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مغرب جدید تہذیب کا چیمپین تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان مغرب سے متنفر ہونے کی بناپر جدید تہذیب سے متنفر ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے ذریعہ جو نئے مواقع (opportunities) کھلے تھے، وہ مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس بنا پر مسلمان موجودہ زمانے میں ایک پچھڑاہوا گروہ (backward community) بن کر رہ گئے۔