شہادت اعظم
حدیث رسول کے مطابق، تاریخ کے آخری دور میں امت مسلمہ کا ایک فائنل رول ہوگا، جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے،یعنی مبنی بر حجت دعوت حق کی ادائیگی۔ غالباً یہ شہادت اعظم وہی چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت53:) کہا گیا ہے۔ شہادت اعظم، اور تبیین حق دونوں میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ رول حجت کی سطح پر انجام پائے گا۔
حجت (evidence) کیا ہے۔ حجت ہونا اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ اس کا دلیل ہونا فریق ثانی کے نزدیک ثابت شدہ ہو۔ جو حجت فریق ثانی کے نزدیک مسلّم نہ ہو، وہ فریقین کے درمیان دلیل نہیں بن سکتی۔ دعوت کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانوں میں دعوت کے حق میں جو دلائل دیے گیے، وہ عملاً یک طرفہ تھے۔ یعنی داعی کے نزدیک وہ مسلّم تھے، لیکن مدعو کے نزدیک وہ مسلّم نہ تھے۔
بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ دعوت کے حق میں ایک ایسی دلیل استعمال کی جائے جو داعی اور مدعو دونوں کے درمیان یکساں طور پر مسلّم ہو۔ مثلاً سائنٹفک دور سے پہلے جب داعی یہ کہتا تھا کہ رب السموات والارض صرف ایک ہے۔ تو یہ ایک یک طرفہ بیان ہوتا تھا۔ دوسرے فریق کے لیے موقع تھا کہ چاہے وہ اس بیان کو مانے یا نہ مانے۔ مگر آج یہ بیان کہ رب السموات والارض یک طرفہ عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ طور پر ثابت شدہ یونیورسل فیکٹ کی بات ہے۔ آج سائنٹفک مطالعے نے یہ بتایا ہے کہ پوری یونیورس ایک ہی قانون کے تحت عمل کررہی ہے۔ اس کو ایک سائنسداں نے واحد ڈور کا نظریہ (single-string theory) کہا ہے۔
یہی وہ منصوبۂ الٰہی ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یہاں آفاق و انفس کی آیات سے مراد ایسے دلائل ہیں، جو دونوں فریقوں کے درمیان تسلیم شدہ ہوں۔کیوں کہ وہ عالمی قانون فطرت سے مستنبط ہیں۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا ہے۔ وہ پراسس تھا، فطرت (nature) میں انکوائری کا عمل جاری کرنا۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ صلیبی جنگوں کے بعد مغربی قوموں کو سائنسی دریافتوں کی طرف موڑ دیا۔اس طرح تاریخ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کے بعد انسان نے فطرت میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا۔ یہ دریافتیں مسلّمہ سائنسی دریافتیں تھیں، جوریاضیاتی اصولوں پر مبنی تھیں۔ اس بنا پر یہ دریافتیں ہر ایک کےلے ناقابل انکار حقیقتیں بن گئیں۔
اس طرح تاریخ میں پہلی بار فطرت کی ایسی عالمی حقیقتیں دریافت ہوئیں ، جو ہر انسان کے لیے ناقابل انکار بن گئیں۔ اس بنا پر پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دوطرفہ مسلّمات کی بنیاد پر لوگوں کو حق کا پیغام دیا جائے۔اس طرح کی سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں اب علمی اعتبار سے انسان کے لیے صرف توحید کا آپشن باقی رہا ہے۔ شرک یا انکار خدا کا آپشن اب انسان کے لیے موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے ہیومنزم (humanism) کے آپشن کا دعوی کیا ہے، جس کا مطلب ہے:
The transfer of seat from God to man
مگر یہ صرف ایک دعوی ہے، جس کے پیچھے کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ برٹش فلسفی جولین ہکسلے اسی قسم کے مدعیوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا ٹائٹل ہے:
Man Stands Alone by Julian Huxley (Harper, 1941, pp. 297)
اس کتاب کا موضوع اس کے ٹائٹل سے ظاہر ہے۔ اس کتاب کے جواب میں ایک امریکی سائنٹسٹ نے ایک مدلل کتاب تیار کرکے شائع کی۔ وہ کتاب یہ ہے:
Man Does Not Stand Alone by Abraham Cressy Morrison (Fleming H. Revell Company, 1944, pp. 107)
حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن سائنس نے خالص دلیل کی سطح پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں فریق بننے کو تیار نہیں۔ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں ان ڈفرنٹ (indifferent) رہنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ناسا کے ایک سائنسداں کو اس وجہ سے جاب سے نکال دیا گیا کہ وہ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن کو مانتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کو نظریہ ارتقا سے حل نہیں کیا جاسکتا:
Nasa of America sued by scientist 'sacked for belief in intelligent design': Life is too complex to have developed through evolution alone. (www.telegraph.co.uk. [accessed: 25.01.2018])
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے بارے میں جو سائنٹفک دریافتیں ہوئی ہیں، انھوں نے حقیقت خداوندی کو اب ایک ثابت شدہ واقعہ بنا دیا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ کوئی ان حقائق کو لے کر کھڑا ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ رول صرف اور صرف امت مسلمہ کے لیے مقدر ہے، جس کو قرآن میں امت وسط کہا گیا ہے(البقرۃ143:)۔ مگر امت مسلمہ اس رول کو اداکرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی اپنے منفی نفسیات کی بنا پر اس مثبت رول کو ادا کرنے کے لیے نا اہل ہوگئی ہے۔ امت مسلمہ کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی نفرت اور تشدد کی تمام سرگرمیوں کو یک طرفہ طور پر اور کلی طور پر ختم کردیں تاکہ وہ دنیا میں شہادت اعظم کے اس رول کو ادا کرنے کے اہل ہوجائیں، اور اس کے بدلے میں اللہ رب العالمین کے یہاں ابدی جنت کے مستحق قرار پائیں۔