شدت پسندی نہیں
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللهُ عَلَيْهِمْ، فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارِ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر4904)۔ یعنی، تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ تم پر سختی کی جائے گی۔ کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی۔ پھر اللہ نے بھی ان پر سختی کی، تو انہیں لوگوں کے باقیات ہیں گرجوں میں اور خانقاہوں میں۔
اس حدیث میں تشدد سے مراد محدود طور پر صرف مذہبی تشدد یا انتہا پسندانہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ جس معاملہ میں بھی اعتدال کا طریقہ چھوڑ کر شدت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا، وہ سب اس حدیث کے حکم میں شامل ہوگا۔
اعتقادی شدت پسندی یہ ہے کہ جزئی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کی جانے لگے۔ اسی طرح عبادتی شدت پسندی یہ ہے کہ فروعی مسالک کی بنیاد پر الگ الگ مسجدیں بنائی جائیں اور اس کو امت میں تفریق کی حد تک پہنچا دیا جائے ۔ اسی طرح معاملاتی شدت پسندی یہ ہے کہ رخصت کو کم تر سمجھ کر ہر معاملہ کو عزیمت کا سوال بنا دیا جائے۔
شدت پسند آدمی اپنے آپ میں جیتا ہے۔ وہ صرف اپنی امنگوں کو جانتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حیثیت اس انسان جیسی ہو جاتی ہے جو سڑک کو خالی سمجھ کر اس کے اوپر اپنی گاڑی دوڑانے لگے۔ ایسا آدمی کبھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز اعتدال پسندی ہے، نہ کہ شدت پسندی۔ شدت پسندی گویا خدا کے تخلیقی نقشہ کے خلاف جینے کی کوشش کرنا ہے اور اعتدال پسندی خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔ شدت پسندی اپنی ذات کے اعتبار سے تواضع کے خلاف ہے اور دوسروں کے اعتبار سے رعایت انسانی کے خلاف ۔ اور یہ دونوں چیزیں بلا شبہ اسلام میں مطلوب نہیں۔
شدت پسندی اللہ کو پسند نہیں ۔ جو لوگ شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متشدانہ طریقہ ان کی روایات میں شامل ہو کر ان کے دین کا جزء بن جاتا ہے۔ اس طرح ان کی بعد کی نسلیں مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ ان کی پیروی کریں۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار سے کم تر درجہ کی دین داری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس شدت پسندی کا تعلق محدود طور پر صرف رہبانیت سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ہر دینی شعبہ سے ہے۔ مثلاً قومی اور سیاسی حقوق کی جدو جہد کے لیے دو ممکن طریقے ہیں۔ ایک پُر امن جدو جہد اور دوسری پُر تشدد جد و جہد۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پر امن اور غیر متشدانہ طریقہ کار کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کی جدو جہد کی جائے ۔ اس کے برعکس، اگر متشدانہ طریقہ کار کا انداز اختیار کیا جائے تو اس کے بیک وقت دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ قوم کو غیر ضروری سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ دوسرے یہ کہ جب ایک بار متشدانہ طریقہ کار کی روایت قائم ہو جائے گی تو اس کو جدو جہد کے اعلیٰ معیار کی حیثیت حاصل ہو جائے گی ۔ تشدانہ طریقہ کار کو بے نتیجہ سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس پر قائم رہیں گے۔ کیوں کہ اس سے ہٹنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہو گا کہ انہوں نے خود دین کے مطلوب معیار کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کر لیا۔ انہوں نے اقدام کے بجائے پسپائی کو اپنا طریقہ بنالیا۔
شدت پسندی ہی کی ایک صورت وہ ہے جس کو انتہا پسندی (extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی یہ ہے کہ آدمی حقائق اور امکانات کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ عقل کے بجائے اپنے جذبات کی رہنمائی میں چلنے لگے۔ وہ دور اندیشی کے بجائے عجلت پسندی کی روش اختیار کرلے۔ وہ تدریج کے بجائے چھلانگ کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہے۔
ایسا آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ شوق کو اپنے آگے رکھ دیتا ہے اور دوراندیشی کو اپنے پیچھے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ ہر ایک کی ایک حد ہے خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی گروہ ۔ حد کو نظر انداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے ہوئے انگارے کی گرمی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یا پتھر کو توڑنے کے لیے اپنے سر کو ہتھوڑا بنالے۔ اس قسم کا ہر فعل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے (الرسالہ، فروری 2003)۔
