فعل اور فاعل کا فرق

قرآن کی سورہ نمبر 109 کی پہلی آیت یہ ہے: قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ (109:1)۔ اس آیت میں الکافرون سے مراد قدیم مکہ کے منکرین قریش ہیں۔ ان الفاظ میں قریش کے منکرین کے بارے میں اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تم لوگ اللہ کی نظر میں کافر ہو چکے ہو۔ قرآن میں اس طرح تعین اور تشخص کی زبان میں کسی اور گروہ کے کافر ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔

قرآن میں دوسرے مقامات پر کفر اور کافر کے الفاظ آئے ہیں ۔ مثلاً فرمایا: فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ (64:2)۔یعنی، پھر تم میں سے کوئی منکر ہے اور کوئی مومن۔اسی طرح ارشاد ہوا ہے: فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ (2:253)۔ یعنی،پھر ان میں سے کوئی ایمان لایا اور کسی نے انکار کیا۔  ان دوسری قسم کی آیتوں میں فعل کا ذکر ہے، مگر مشخص طور پر فاعل کا ذکر نہیں۔ یعنی یہ تو کہا گیا ہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے یا فلاں فعل کا ارتکاب کرنے والا خدا کی نظر میں کافر بن جاتا ہے۔ مگر ان دوسری قسم کی آیتوں میں ایسا نہیں کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کو مشخص اور متعین کر کے اُس کے بارے میں یہ اعلان کیا جائے کہ فلاں فلاں گروہ کافر ہیں۔

قرآنی بیان میں اس فرق سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ یہ کہنے کا حق ہر داعی کو ہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے۔ مگر یہ حق کسی بھی داعی یا عالم کو نہیں کہ وہ مشخص طور پر یہ اعلان کرے کہ فلاں گروہ یا فلاں قوم کا فر ہے۔ ایک متوازی مثال سے اس معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ: مَنْ ‌تَرَكَ ‌الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا ‌فَقَدْ ‌كَفَرَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 3348)۔یعنی، جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کیا، اور اسنے کفر کیا۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں — بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 82)۔ یعنی، بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر مسلسل نماز ترک کرے تو وہ شریعت کے مطابق کافر ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر کوئی مصلح اگر یہ کرے کہ وہ عمومی طور پر ترغیب و ترہیب کے انداز میں مسلمانوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے اور ترک صلاۃ کی وعید بتائے تو اس کا ایسا کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مصلح ایسا کرے کہ وہ نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کی نام بنام ایک فہرست تیار کرے اور اس فہرست کو لے کر مشخص طور پر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں مسلمان ترک صلاۃ کی بنا پر کافر ہو چکے ہیں تو اس کا ایسا کرنا بالکل غلط ہو گا۔

ٹھیک اسی طرح کوئی داعی یا مصلح قرآن کی آیتوں کو لے کر یہ مسئلہ بیان کر سکتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کوئی شخص اللہ کی نظر میں کا فر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایسا کرنا اپنی حد سے تجاوز ہو گا کہ وہ غیر مسلم افراد یا گروہوں کے نام لے کر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں غیر مسلم لوگ کافر ہیں۔

اس معاملہ میں فعل اور فاعل کے درمیان فرق کرنا لازمی طور پر ضروری ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ مشخص طور پر فاعل کا اعلان کرے۔ اللہ تعالی نے یہ اعلان صرف ایک بار قدیم منکرین قریش کے بارے میں کیا ہے جن کے اوپر پیغمبر نے براہ راست اتمام حجت کیا تھا۔ بقیہ انسانوں کے بارے میں وہ آخرت میں اعلان فرمائے گا۔ ہمارا کام صرف دعوت دینا ہے، نہ کہ لوگوں کے کافر ہونے کا اعلان کرنا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom