فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

آج کل مختلف قسم کے ایکٹوزم (activism) کا چرچا ہے۔ مثلاً پولٹکل ایکٹوزم، سوشل ایکٹوزم، ملّی ایکٹوزم اور میڈیا ایکٹوزم، وغیرہ۔ انہیں میں سے ایک وہ ہے جس کو جو ڈیشل ایکٹوزم (judicial activisim) کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک انٹرسٹ ( مفاد عامہ) کے کاموں میں عدالت سے رجوع کر کے اس کا حکم حاصل کرنا، قانون کی مددسے مفاد عامہ سے تعلق رکھنے والے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ جوڈیشل ایکٹوزم کا یہ طریقہ سیکولر طبقے کے لوگوں کے یہاں رائج ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کے کچھ مذہبی طبقے نے کچھ عرصے سے وہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے جس کو فتویٰ ایکٹوزم کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی اصلاح کے مقصد کے لیے فتوے کا طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔ مثلاً کسی لباس کو غیر دینی لباس بتا کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، کسی مشروب کو غیر اسلامی مشروب بتا کر اس کی حرمت کا فتویٰ جاری کرنا، کسی مذہبی مقام پر عورتوں کے جانے کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتوی ٰجاری کرنا، کسی کو پیغمبر ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا بتا کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کرنا ،کسی مصنف کو متنازعہ قرار دے کر یہ فتویٰ جاری کرنا کہ اس کی کتابیں نہ پڑھو، کسی کو مرتد قرار دے کر اس کے خلاف بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کرنا، ٹیلی ویژن یا اسی قسم کی اور چیزوں کو حرام قرار دے کر ان سے اجتناب کرنے کا فتویٰ دینا، بینکنگ اور اسی طرح دوسری نئی چیزوں کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے عدم استعمال کا فتویٰ دینا، وغیرہ۔

 اس قسم کے فتوے موجودہ زمانے میں ہزاروں کی تعداد میں دیے گئے ہیں مگر سب کے سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر فتوے کا صرف یہ انجام ہوا کہ وہ مطلوب نتیجہ پیدا نہ کر سکا۔ پورے جدید دور میں مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کہ مفتی نے استفتا کے با وجو د فتویٰ دینے سے انکار کر دیا۔

 یہی طریقہ میرے نزدیک صحیح طریقہ تھا۔ برٹش دور میں دہلی میں ایک عالم تھے۔ ان کا نام مولانا عبد الحق حقانی (وفات1831)تھا۔ انہوں نے قرآن کی ایک تفسیر لکھی تھی جو ’’تفسیر حقانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان کے زمانے میں انگریزی حکومت نے سونے چاندی کے سکے کی جگہ کاغذی نوٹ جاری کیے ۔ یہ کاغذی نوٹ روایتی فقہی مسئلے کے اعتبار سے بظاہر غیر اسلامی تھے۔ مولانا عبد الحق حقانی سے یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کاغذی نوٹ کا طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا نا جائز ۔ انہوں نے اس استفتا پر کوئی فتوی نہیں دیا۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا اور نوٹ چل جائے گا۔ اس طرح کے معاملے میں یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔

 فتویٰ کا لفظی مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص خود اپنے بارے میں پوچھے کہ مجھے فلاں معاملہ در پیش ہے۔ میں اس میں کیا کروں۔ مثلاً ایک خاتون کھلاڑی اپنے ڈریس کے بارے میں پوچھے کہ کھیل کے دوران مجھے اسلامی نقطۂ نظر سے کون سا ڈریس استعمال کرنا چاہیے ۔ ایسی حالت میں فتویٰ دینا درست ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ فتویٰ پوچھنے والا خود اپنے بارے میں حکم کی پیروی کی نیت سے مفتی سے سوال کرے۔ ایسی حالت میں مفتی کو فتویٰ پوچھنے والے کو جواب دینا چاہیے ۔ فتوے کا صحیح استعمال اور اس کا درست محل یہی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ سماج میں ایک بُرائی موجود ہے۔ اس کے بارے میں خود سماج کی طرف سے کوئی سوال نہ کیا جارہا ہو ۔ ایک شخص ذاتی طور پر اس سماجی مسئلے کو لے کر اس کے متعلق استفتا مرتب کرے اور اس کے بارے میں مفتی سے فتویٰ پوچھے ۔ اس صورت میں اگر مفتی فتویٰ دیتا ہے تو وہ فتوے کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایسا فتویٰ مثبت معنوں میں کوئی اصلاح تو پیدا نہیں کرے گا البتہ وہ اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔

مثال کے طور پر کئی سماجی برائیاں ہیں جن کے خلاف مفتی صاحبان نے موجودہ زمانے میں فتوے دیے ہیں ۔ مگر مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں یہ ہوا کہ ان کا فتویٰ تو نہیں چلا البتہ برائیاں بدستور جاری رہیں ۔ مثلاً بدعات کے خلاف فتویٰ، مشرکانہ رسموں کے خلاف فتویٰ، شادیوں میں جہیز کے خلاف فتویٰ، ٹی وی اور سنیما کے خلاف فتویٰ ،لاؤڈ اسپیکر کے خلاف فتویٰ ،بینک انٹرسٹ کے خلاف فتویٰ ، داڑھی نہ رکھنے کے خلاف فتویٰ، مغربی لباس کے خلاف فتویٰ ،انگریزی تعلیم کے خلاف فتویٰ، وغیرہ ۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ تمام فتوے بے نتیجہ ہو کر رہ گئے، معاشرے کے اوپر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

 میرے مطالعے کے مطابق، اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ صرف صاحب معاملہ کو اپنے بارے میں استفتا کا حق ہے اور اسی طرح کے معاملے میں مفتی کو فتویٰ دنیا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مفتی کے پاس اس قسم کا استفتا بھیجے کہ فلاں مسجد کے امام کی داڑھی چھوٹی ہے، تو کیا ایسے امام کے پیچھے مقتدیوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ اس قسم کا استفتا ایک فتنہ ہے، نہ کہ حقیقتاً کوئی استفتا۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ ایسے استفتا کا جواب نہ دے۔ استفتا کا تعلق، فتویٰ پوچھنے والے کے ذاتی معاملے سے ہے، نہ کہ اس کی ذات کے باہر دوسروں کے معاملے سے۔

 اب سوال یہ ہے کہ عمومی اصلاح یا معاشرتی اصلاح کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یہ طریقہ تذکیر اور نصیحت کا طریقہ ہے، نہ کہ فتوے کا طریقہ۔ یعنی تحریر اور تقریر کے ذریعے لوگوں کو سمجھانا۔ سمجھانے کے یہ کام ’’قول بلیغ‘‘ کی زبان میں ہونا چاہیے ۔ یعنی ایسی زبان اور دلیل جو سننے والے کے دل میں اُتر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرلے۔

نصیحت اور تذکیر کے اس طریقے کو آج کل کی زبان میں ایجوکیشنل ایکٹوزم کہا جا سکتا ہے۔ یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاح معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے، نہ کہ فتوی ایکٹوزم پر۔

اس معاملے میں ایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میں آیا ہے ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہو اور لوگوں کے اندرذہنی آمادگی آجائے ۔اس طرح جب قبولیت کی استعداد پیدا ہو گئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اتر تا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے بلکہ وہ یہ کہتے کہ ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم شراب نہ چھوڑیں گے: إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنَ الْمُفَصَّلِ، فِيهَا ذِكْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ:لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ، لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ: لَا تَزْنُوا، لَقَالُوا: ‌لَا ‌نَدَعُ ‌الزِّنَا أَبَدًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993)۔

اس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعداد پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔

جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو حکم یا قانون کا علم نہیں ہے۔ اس لیے لاعلمی کی بنا پر لوگ غلط کاموں میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ کا سبب لوگوں کے اندر اسپرٹ کی کمی ہوتی ہے، نہ یہ کہ وہ حکم اور قانون سے بے خبر ہیں۔

 ایسی حالت میں سماجی سدھار یا معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ نہیں کہ قانونی حکم کو لے کر فتویٰ صادر کیا جائے بلکہ اس کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اسپرٹ کو جگایا جائے، لوگوں کے اندر شعور کو زندہ کیا جائے،لوگوں کے اندر قبولیت کا مادّہ پیدا کیا جائے ۔ جب یہ کام قابل لحاظ حد تک ہو جائے اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگوں کو حکم اور قانون کی زبان میں مسائل سے آگاہ کیا جائے ۔ داخلی استعداد پیدا کرنے سے پہلے، خارجی احکام کا اعلان کرنا ایک غلط ترتیب ہے ۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے، جو کہ یقینی طور پر قابل عمل نہیں ۔

فتویٰ ایکٹوزم ہو یا دوسرا کوئی ایکٹوزم ہر ایک کو جانچنے کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ عملی طور پر اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ کسی عمل کی درستگی کو جاننے کا ذریعہ صرف اس کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک مسلّم اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رخی عمل (result-oriented action) ہونا چاہیے، اور فتوی ایکٹوزم بلا شبہ اس اصول عام سے مستثنیٰ نہیں۔(الرسالہ، ستمبر 2006)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom