دین میں غلو
اسلام میں جو چیزیں منع ہیں، ان میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو غلو کہا گیا ہے۔ یعنی حد سے تجاوز کرنا۔ غلو کا یہ فعل ہمیشہ دینی معاملات میں کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں نصاریٰ کو غلو سے منع کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ( 5:77) ۔ یعنی، اپنے دین میں غلو نہ کرو۔
یہ نہیں فرمایا کہ : لا تُغْلِوا فِي كُفْرِكُمْ (اپنے کفر میں غلو نہ کرو)۔ میرے ہم وطنوں میں ایک صاحب تھے۔ ان کا نام قمر الدین تھا۔ بہت مخلص آدمی تھے۔ نماز روزہ کے حد درجہ پابند تھے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا کہ جمعہ کی نماز کے لیے وقت پر مسجد پہونچنا ان کے لیے دشوار ہو جاتا۔ اس کی وجہ ’’شرعی غسل ‘‘ کے بارے میں ان کا انتہا پسندانہ تصور تھا۔ جمعہ کے دن وہ نہانا شروع کرتے تو بار بار انہیں شبہ ہو جاتا کہ ان کا غسل مکمل نہیں ہوا ۔ فلاں جگہ کے بال تک پانی نہیں پہونچا۔ جسم کا فلاں حصہ دھونے سے رہ گیا۔ چنانچہ وہ گھنٹوں غسل خانہ میں نہاتے رہتے۔ بعض اوقات یہ مدت اتنی لمبی اور اتنی تکلیف دہ ہو جاتی کہ غسل کے عمل میں حوض کے پانی کے ساتھ ان کی آنکھوں کے آنسو بھی شریک ہو جاتے ۔
یہ ایک غیر ضروری قسم کا شک تھا۔ شریعت کی نظر میں یہ غلو ہے، نہ کہ اسلامی احتیاط۔غلو کی یہ برائی ہمیشہ دینی جذبہ کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ مگر اپنے انجام کے اعتبار سے وہ دین کی ضد بن جاتی ہے۔ ابتدائی نیت کے اعتبار سے وہ بظاہر معصوم ہوتی ہے مگر عملی صورت اختیار کرنے کے بعد غیر معصوم۔
اللہ کی عبادت کرنا اسلام کے فرائض میں سے ہے۔ لیکن اگر کوئی عبادت گزار مغرب کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یا ہر رات کو سارا قرآن ختم کرنے لگے تو اس طرح کا فعل عبادت میں غلوبن جائے گا ۔
اسلام میں غیرت مندی کو پسند کیا گیا ہے۔ لیکن کسی کی غیرت اگر اس حد تک بڑھے کہ اس کو اپنے خلاف سچائی کے اعتراف میں بھی غیرت آنے لگے تو ایسی غیرت غلو کی فہرست میں شامل ہو جائے گی۔ اسلام میں اہل علم کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔ لیکن اگر اہل علم کے احترام کا مطلب یہ لیا جائے کہ اہل علم پر تنقید نہ کرو تو یہ غلو بن جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ محض دینی جذبہ کسی عمل کو دینی نہیں بناتا۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمل خدا کے حکم اور رسول کے نمونہ کے مطابق ہو(الرسالہ، اپریل 1987)۔
