عمر ضائع کردی
1330 ھ میں رشید رضا مصری (1865-1935) ہندستان آئے تھے ۔ وہ دارالعلوم دیو بند گئے ۔ وہاں ان کے خیر مقدم کے لیے ایک جلسہ ہوا۔ اس موقع پر موصوف نے دارالعلوم کے ایک استاد سے پوچھا کہ یہاں حدیث کے درس کا طریقہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب حدیث پڑھی جاتی ہے تو محدث پہلے اس کے علمی نکات کو بیان کرتا ہے۔ اگر بادی الرائے میں حدیث امام ابو حنیفہ ؒکے مسلک کے خلاف ہوتی ہے تو محدث حنفی مسلک سے اس کی مطابقت ثابت کرتا ہے۔ رشید رضا نے یہ سن کر کہا ،کیا یہی تمام احادیث میں ہوتا ہے۔ کہا گیا ہاں، انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی ۔ مولا نا محمد یوسف بنوری (1908-1977) کی روایت کے مطابق ،انہوں نے کہا:هَلِ الحَديثُ حَنَفِيٌّ، وَكَيْفَ يُمكِنُ ذٰلِكَ، وَهَلْ هٰذَا إِلَّا عَصَبِيَّةٌ مَا لَهَا مِن سُلطَانٍ( كيا حدیث بھی حنفی ہے، ایسا کس طرح ہو سکتا ہے، یہ تو محض عصبیت ہے، جس کے لیے کوئی دلیل نہیں)۔ مولانا انور شاہ کشمیری (1875-1934)اس زمانے میں دارالعلوم میں حدیث کے استاد تھے۔ انہیں یہ خبر پہونچی تو انہوں نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں اس کو اپنا موضوع بنایا اور’’ ثابت‘‘ کر دیا کہ تمام حدیثیں فقہ حنفی کے مطابق ہیں( نفحۃ العنبر، صفحہ 70-71)۔
تاہم انور شاہ کشمیری کو آخر عمر میں اس طریقِ تعلیم کی خامی کا احساس ہو گیا تھا۔ موصوف کے شاگرد مولانا مفتی محمد شفیع (1976-1897) ناقل ہیں کہ مولا نا کشمیری نے ان سے کہا:
ہماری تمام کدو کاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کریں... مگر کیا حاصل ہے اس کا۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو صواب محتمل الخطا (درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے)ثابت کریں اور دوسرے مسلک کو خطا محتمل الصواب (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے)کہیں... ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صحیح ہے، لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطا ہو۔ اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ وہ درست ہو۔ قبر میں منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا۔ آمین بالجہر حق تھی یا با لسر حق تھی... جس چیز کو نہ دنیا میں نکھرنا ہے، نہ محشر میں۔ اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی... اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، جس کی دعوت انبیائے کرام لے کر آئے تھے ... آج وہ دعوت تو نہیں دی جارہی ... ہم لگے ہوئے ہیں ان فروعی بحثوں میں ۔ (وحدتِ امت از مفتی محمد شفیع، لاہور، 1997، صفحہ 13-15) بحوالہ تجدید دین۔
