بے فائدہ باتیں
مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943ء) کو ایک شخص نے خط لکھا اور یہ دریافت کیا کہ فلاں شرعی مسئلہ کی حکمت کیا ہے۔ مولانا تھانوی نے جواب میں لکھا حکمت کا سوال کرنے میں کیا حکمت ہے۔ تم خدا کے فعل کی حکمت ہم سے پوچھتے ہو ہم خود تمہارے فعل کی حکمت تم سے پوچھتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا یہ عجیب مزاج ہوتا ہے کہ وہ غیر ضروری سوالات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنا احتساب کریں اپنی ذمہ داریوں پر دھیان دیں۔ البتہ خارجی مسائل میں موشگافیاں نکالنے اور ان کی حکمتیں معلوم کرنے کا انہیں بہت شوق ہوتا ہے۔ یہ ذہن قطعاً غیر اسلامی ہے۔ جن لوگوں کا ذہنی ڈھانچہ اس قسم کا بن جائے وہ کبھی حق کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
کمانے اور گھر بنانے کا معاملہ ہو تو ہر آدمی اپنے بارے میں سوچتا ہے ۔ ہر آدمی کو سب سے زیادہ فکر یہ ہوتی ہے کہ اس کی کمائی اچھی ہو جائے اور اس کا مکان اچھا بن جائے۔ مگر دین اور آخرت کا معاملہ ہو تو ہر آدمی ایسے مسائل پر بحث کرنا پسند کرتا ہے جس کا تعلق اس کی اپنی ذات سے نہ ہو۔
ایک بزرگ جنہوں نے ایک بڑے ادارہ میں 30 سال فتوی نویسی میں گزارے تھے، انہوں نے کہا کہ اس پوری مدت میں ہمارے پاس جو استفتا آتے رہے وہ زیادہ تر دوسروں کے بارے میں تھے اپنے بارے میں بہت کم ہم سے کسی نے سوال کیا۔ فلاں کی جائیداد میں میرا کتنا حصہ بنتا ہے۔ فلاں شخص جو ایسا اور ایسا ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یانا جائز وغیرہ۔ اس قسم کے سوالات تو بہت آتے رہے مگر کسی نے ہم سے یہ نہ پوچھا کہ اس کی اپنی شرعی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ وہ اپنے صاحب ِمعاملہ کے حقوق کسی طرح ادا کرے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے درمیان کسی طرح رہے۔ وہ اختلاف اور شکایت کے موقع پر لوگوں سے کسی قسم کا سلوک کرے۔ فلاں شخص جس کو وہ ستا رہا ہے اس کو ستانا اس کے لیے جائز ہے یا نا جائز ہے۔ فلاں آدمی جس کا اس نے پیسہ دبا رکھا ہے وہ اس کو دبانا چاہیے یا نہیں دبانا چاہیے ۔ فلاں شخص جس کو وہ بے عزت کر رہا ہے وہ اس کے لیے درست ہے یا نہیں۔
آدمی دوسروں میں گم رہتا ہے حالانکہ اس کو اپنے آپ میں گم ہونا چاہیے ۔ وہ خارجی مسائل میں جیتا ہے حالانکہ اس کو اپنے اندرونی مسائل میں جینا چاہیے ۔ وہ دوسروں کے دین وایمان کو نا پتا ہے حالانکہ اس کو وہ پیمانہ حاصل کرنا چاہیے جس میں وہ اپنے دین وایمان کو ناپ سکے — باہر دوڑنے والے بد جانور کی خبر ہر ایک کو ہے مگر اپنے دماغ میں بغض اور انتقام کاجو بدجانور بسیرا لیے ہوئے ہیں اس کی خبر کسی کو نہیں ۔ عبادت گاہ کے باہر کا تماشا ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے مگر عبادت کے اندر ہونے والا تما شا کسی کو نظر نہیں آتا(الرسالہ، مارچ 1981)۔
