داعی اور مدعو کا رشتہ
شریعت کے اعتبار سے مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ یہ رشتہ لازم کرتا ہے کہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق قائم رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ تاجر کو ہمیشہ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) ہونا چاہیے ۔ اسی طرح داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمیشہ مدعو فرینڈ لی ہو۔
Be always Mad'u friendly.
مدعو کے حق میں داعی کے اندر خیر خواہا نہ جذبات ہونے چاہئیں۔ اگر داعی کے اندر مدعو کے لیے یہ مطلوب جذبات موجود ہوں تو وہ ہرگز اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسے الفاظ بولے جس سے مدعو کے دل میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہو جائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ سچا داعی ہے تو اپنے دل میں بھی وہ ایسی بات نہیں سوچے گا۔ دعوت کا جذبہ نفرت کا قاتل ہے ۔ داعی کا دل ایک دردمند دل ہوتا ہے۔ ایسے دل کے اندر محبت اور خیر خواہی کے سوا کوئی اور چیز پرورش نہیں پاسکتی۔
قدیم زمانہ میں آرین لوگ جب انڈیا میں آئے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو انہوں نے ملچھ کہا۔ اسی طرح مسیحی علما نے مسلمانوں کو اپنی کتابوں میں انفڈل (infidels) لکھا۔ ملچھ اور انفڈل دونوں تحقیری الفاظ (derogatory words) ہیں ۔ کہنے والا ان الفاظ کو بول کر خوش ہوتا ہے مگر جس کے بارے میں یہ لفظ بولا گیا ہے وہ اس کو سخت نا پسند کرتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن میں کوئی تحقیری مفہوم (derogatory sense) نہ ہو، بلکہ وہ سادہ طور پر صرف اظہار واقعہ کے ہم معنی ہو۔ بدقسمتی سے اس معاملہ میں مسلم علما احتیاط کا پہلو اختیار نہ کر سکے۔ وہ اپنی کتابوں میں اور قرآن کے ترجموں میں کافر کے لیے بے تکلف انفڈل کا لفظ استعمال کرنے لگے ۔ مثال کے طور پر مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن میں : قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے
Say thou: O ye infidels! (109:1)
دراصل مسلم علما اور رہنماؤں کی اسی قسم کی غیر احتیاطی باتیں ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان میں ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہو گیا ہے جس کا نتیجہ مختلف ناخوشگوار صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔
یہی غلطی قرآن کے اردو اور فارسی مترجمین نے بھی کی ہے۔ قرآن کے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ مگر غالباً صرف ایک مترجم ( شاہ عبد القادر ) کو چھوڑ کر تمام مترجمین نے اس معاملہ میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کیا ہے۔ ’’ قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ‘‘ کے کچھ ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں :
بگو اے کا فراں ( شاہ ولی الله )
کہہ اے کا فرو ( شاہ رفیع الدین )
آپ ان کا فروں سے کہہ دیجیے (اشرف علی تھانوی)
کہہ دو کہ اے کا فرو ( ابوالاعلیٰ مودودی)
کہہ دو، اے کا فرو ( امین احسن اصلاحی)
تو کہہ، اے منکرو ( شاہ عبد القادر )
اس قرآنی آیت کے تحت اکثر مترجمین نے اسی قسم کے ترجمے کیے ہیں۔ اس آیت میں کافر کا ترجمہ درست نہیں ۔ بالفرض وہ خالص لغوی اعتبار سے غلط نہ ہو تب بھی وہ دوسری قوموں کے لیے ایک قابل اعتراض لفظ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ترجمہ سے احتراز کیا جائے۔ پھر یہ صرف ترجمہ کی بات نہیں اسی ترجمہ کی بنیاد پر ذہن بنتا ہے اور تقریر وتحریر میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ترجمہ پوری ملت کی منفی ذہن سازی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ ترجمہ ہم اور وہ (we and they) کا ذہن پیدا کرتا ہے اور اس قسم کا تقسیمی ذہن دعوتی اعتبار سے درست نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا۔ غالباً ایک ہی عالم ہیں جنہوں نے قرآن کے ان الفاظ کا درست ترجمہ کیا ہے اور وہ شاہ عبد القادر دہلوی ہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب کا اردو ترجمہ تمام علما کے نزدیک نہات مستند مانا گیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ آیات کا ترجمہ منکر کیا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر 109 میں : قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ (کہو کہ اے منکرو) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ طرز خطاب پورے قرآن میں صرف ایک بار اسی ایک سورہ میں استعمال ہوا ہے۔ کافریا کفار یا کافرون کے الفاظ تو قرآن میں متعدد بار آئے ہیں۔ مگر أَيُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ جیسے متعین خطاب کی صورت میں اس کا استعمال قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوا ہے۔
مفسرین کی رائے کے مطابق، یہاں الکافرون میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ ایک گر وہ خاص کے لیے مشخص (specific) طور پر آیا ہے، نہ کہ عمومی طور پر ہر اس شخص کے لیے جو مسلم گروہ سے باہر ہو۔ ذیل میں کچھ مفسرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں :
الْمُخَاطَبُونَ كُفَّارٌ مَخْصُوصُونَ قَدْ عَلِمَ اللهُ أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (تفسير النسفی، جلد 3، صفحہ 687)۔یعنی، اس کے مخاطب مخصوص منکرین ہیں، جن کے بارے میں اللہ جانتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
وَعَنَى بِالْكَافِرِينَ قَوْمًا مُعَيَّنِينَ لَا جَمِيعَ الْكَافِرِينَ (تفسير القرطبی، جلد20، صفحہ226)۔ یعنی، اس سے مراد منکرین کا متعین گروہ ہے، نہ کہ تمام منکرین۔
خِطَابٌ لِجَمَاعَةٍ مَخْصُوصَةٍ (تفسير المظهرى، جلد10، صفحہ354)۔ یعنی،یہ خطاب ایک مخصوص جماعت سے ہے۔
قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ ایک مخصوص خطاب ہے اس کو عمومی طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ سے مراد ہمیشہ کے لیے صرف قدیم منکرین قریش رہیں گے جو پیغمبر اسلام ﷺ کے معاصر تھے اور پیغمبرانہ اتمام حجت کے باوجود جنہوں نے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کیا۔ زمانہ نبوت کے بعد کے لوگوں کو أَيُّهَا الإِنسَانُ (اے انسانو) کے لفظ سے خطاب کیا جائے گا، نہ کہ أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (اے منکرو)کے لفظ سے۔ اب یہی انداز خطاب ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
