مذہبی انتہا پسندی
مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل دورِ زوال کا ایک ظاہرہ ہے۔کوئی امت جب بعد کے زمانے میں زوال (degeneration) کا شکار ہوتی ہے تو اُس وقت امت کے اندر وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ زوال کا تعلق فطرت کے ایک قانون سے ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں۔
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال میں ہے، اور زوال کے دوسرے مظاہر کی طرح اس کے اندر مذہبی انتہا پسندی آچکی ہے۔ قرآن اور حدیث میں مذہبی انتہا پسندی کے لیے جو لفظ استعمال کیاگیا ہے، وہ غلو ہے۔ کسی امت کی بعد کی نسلوں میں جب زوال آتا ہے تو اُس وقت فطری قانون کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ امت کے افراد میں دین کی اسپرٹ ختم ہوجاتی ہے۔ اُن کے درمیان صرف دین کا فارم باقی رہتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل مبنی بر فارم مذہب کا دوسرا نام ہے۔
کسی امت کے دور زوال میں جب مبنی بر فارم مذہب کا رواج ہوجائے تو ایسا ہوتا ہے کہ دین کے ہر معاملے میں ظواہر کو اہم سمجھ لیا جاتا ہے۔ اُس وقت فطری طور پرایسا ہوتاہے کہ قرآن میں صحتِ تلفظ کو ساری اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ عبادت کے معاملے میں خشوع کے بجائے ارکان کی ادائیگی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دینی احکام کے معاملے میں ساری بحث اس کے فنی پہلوؤں پر مرتکز ہوجاتی ہے۔ اسلامی زندگی کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ ایک ظاہری شناخت (identity) کو اختیار کرلیاجائے۔ اسلامی دعوت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مروجہ سیاسی نظام کو توڑ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی حکومت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بالجبر لوگوں کے اوپر شرعی حدود قائم کی جائے۔ اسلامی مفاد کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ تمام قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ کیا جائے، وغیرہ۔
کسی امت کا دور زوال میں پہنچنا کیا ہے، وہ ایک عمومی مثال کے مطابق، تاڑ سے گرکر کھجور پر اٹکنا ہے۔ ایسے وقت میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ عام قوموں کی طرح صرف ایک مادی قوم بن جاتی ہے۔ تاہم اپنی تاریخی روایات کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دین سے قطع تعلق کرلے۔ دین اس کے لیے ایک روایتی وراثت ہوتا ہے۔ دین اس کی قومی شناخت ہوتا ہے۔ دین کی تاریخ اس کے لیے فخر کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اس کے ادارے اور اس کی سرگرمیاں، سب کی سب، دین کے نام پر کھڑی ہوتی ہیں۔ دین اب اس کے لیے صرف دین نہیں رہتا، بلکہ وہ اس کی دنیوی حیثیت کی واحد علامت بن جاتاہے۔
کسی امت پر جب یہ وقت آتا ہے تو اُس وقت اس کے اندر وہ ظاہرہ فروغ پاتا ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ فطری طورپر اُس وقت اِس مذہبی انتہا پسندی کا اظہار دین کی اسپرٹ میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ظواہر میں ہوتا ہے۔ اُس وقت دین کا اظہار اُن معاملات میں ہوتا ہے جن کا تعلق زندگی کے دنیوی یا مادّی پہلو سے ہو۔
ایک زوال یافتہ امت کے اندر کام کا آغاز افراد کی اصلاح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماعی اقدام سے۔ ایسی امت کے اندر اگر کوئی اجتماعی ادارہ بنایا جائے، اس کےاندر کوئی حکومت قائم کی جائے، اس کے اندر کوئی تنظیم قائم کی جائے تو ایسا ہر اقدام ہمیشہ نتیجے کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوگا۔ کیوں کہ زوال یافتہ امت کے اندر بنائے ہوئے اجتماعی ادارے کے ارکان بھی زوال یافتہ ہوں گے۔ اِس بنا پر اِس قسم کا اجتماعی ادارہ اپنے درودیوار یاظاہری دھوم کے اعتبار سے تو ادارہ نظر آئے گا، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ صرف ایک شان دار قبرستان ہوگا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔(الرسالہ، نومبر 2014)
