چند تاریخی مثالیں

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، قرآن میں ایها الکافرون کے انداز میں خطاب کی مثال صرف منکرین مکہ کے لیے آئی ہے، اور وہ بھی تیرہ سال کے پیغمبرانہ اتمام حجت کے بعد ۔ منکرین مکہ کے سوا کسی اور کو اس طرح مشخص (specific)انداز میں خطاب نہیں کیا گیا۔

 پیغمبر اسلام ﷺ نے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں آپ نے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ يَا أَ  يُّهَا الْكُفَّارُ (اے منکرو)۔ بلکہ قرآن میں یہ آیت اتری: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (82:6)۔ یعنی، اے انسان، تجھ کو کس چیز نے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ہجرت کے بعد صحیفہ مدینہ کا ایک جملہ یہ تھا: لِلْيَهُودِ دِينُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِينَ دِينُهُمْ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ503)۔ یعنی، یہود کے لیے یہود کا دین اور  مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین۔ایسا نہیں ہوا کہ لکھا جائے : لِلْكُفَّارِ دِينُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِينَ دِينُهُمْ( منکرین کے لیے یہمنکرین کا دین اور  مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین)۔

 فتح مکہ کے بعد عرب کے مشرک قبائل کے وفودرسول اللہ ﷺ سے گفت وشنید کے لیے مدینہ آئے۔ مگر یہاں بھی خطاب کا انداز یہی تھا۔ مثلاً یمن کے لوگ مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ: أَتَاكُمْ ‌أَهْلُ ‌الْيَمَنِ (مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ 586)۔اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ: أَتَاكُمْ كُفَّارُ الْيَمَنِ۔ اسی طرح رسول ﷺ نے اطراف عرب کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کیے ان کا انداز بھی یہی تھا۔ مثلاً آپ نے رومی حکمراں کو جو خط لکھا اس کا پہلا جملہ یہ تھا: مِنْ ‌مُحَمَّدِ ‌بْنِ ‌عَبْدِ ‌اللهِ ‌إِلَى ‌هِرَقْلَ ‌عَظِيمِ ‌الرُّومِ (البدایۃ و النہایۃ، جلد4، صفحہ 302)۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ: إِلَى هِرَقْلَ کَافِر الرُّومُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7)۔صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: إنَّ اللهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَكَافَّةً، ‌فَأَدَّوْا عَنِّي يَرْحَمُكُمْ اللهُ (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 607)۔یعنی، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام دنیا کے لیے رحمت بنایا ہے، تو تم لوگ میری جانب سے اس کو پہنچاؤ اللہ تم پر رحمتیں نازل فرمائے۔ اس میں بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ: إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي كَافَّةً لِلْكُفَّارِ(اللہ نے مجھے تمام منکرین کے لیے مبعوث کیا ہے)۔ حضرت عمر فاروق ؄ کے زمانہ میں صحابہ کی فوج ایران میں داخل ہوئی تو روایات کے مطابق وہاں ایران کے غیر مسلم حکمراں کو خطاب کرتے ہوئے ایک صحابی نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ ‌مِنْ ‌عِبَادَةِ ‌الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللهِ (تاریخ الطبری،جلد 3، صفحہ 520)۔ یعنی، تاکہ ہم ان انسانوں کو، جو اس کو پسند کریں،انسانوں کی عبادت سے اللہ کی عبادت کی طرف لے آئیں۔انہوں نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہیں : لَنُخْرِجَ الْكُفَّارَ مِنْ عِبَادَةِ الْكُفَّارِ إِلَى عِبَادَةِ اللهِ(تاکہ ہم ان منکرین کومنکرین کی عبادت سے اللہ کی عبادت کی طرف لے آئیں)۔

اس طرح دورِ اول کے مسلمان جب عرب سے نکل کر بیرونی ملکوں میں پھیلے، تو کسی بھی ملک میں انہوں نے لوگوں کو کافر یا کفار کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا، بلکہ ہر قوم کو اسی لفظ سے خطاب کیا جس لفظ کو اس نے خود اختیار کر رکھا تھا۔ مثلاً مسیحی کومسیحی، یہود کو یہود، مجوس کو مجوس، بودھ کو بودھ وغیرہ۔

کافر کا تحقق اس وقت ہوتا ہے جب کہ متعلقہ شخص کے اوپر کامل اتمام حجت کیا جا چکا ہو اور اس اتمام حجت کا ماڈل صرف ایک ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلامﷺ کے دور میں مکہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدو جہد ہے۔ یہ تیرہ سالہ دعوتی عمل ہمیشہ کے لیے دعوت یا اتمام حجت کے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ اتمام حجت کے بعد بھی متعین طور پر کسی کے کافر ہونے کا اعلان خدا کی طرف سے ہو گا، نہ کہ داعی کی طرف سے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom