کفر اور کافر کا مسئلہ
بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں پھیلا ۔ اس کے تحت انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا ۔ ایک محنت کش طبقہ (working class) اور دوسرا بورژ و اطبقہ۔
بورژوا (bourgeois) ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے متوسط طبقہ کے لیے بولا جاتا تھا۔ مگر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر وہ ایک تحقیری (derogatory) لفظ بن گیا۔ اس نظریہ کے تحت سماج دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک محنت کش طبقہ جو ہر اعتبار سے معصوم طبقہ کی حیثیت رکھتا تھا اور دوسرا بورژوا طبقہ جو مارکسی تصور کے مطابق سرمایہ دار طبقہ (capitalist class) کے ہم معنی تھا اور جو مارکس کے مطابق، ہر قسم کی سماجی اور اقتصادی برائی کی جڑ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ کافر کے لفظ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کافر کا لفظ ابتدائی طور پر صرف ایک سادہ مفہوم رکھتا تھا۔ لغوی اعتبار سے کافر کے معنی ہیں انکار کرنے والا ۔ مگر بعد کے زمانہ میں کافر کا لفظ ایک تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا ۔ موجودہ زمانہ میں نظری اعتبار سے یہ غالباً مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جس سے موجودہ زمانہ کے مسلمان دو چار ہیں۔ ایک مثال سے اس معاملہ کی وضاحت ہوگی ۔ اقبال کا خاندان پہلے ایک برہمن خاندان تھا۔ بعد کو وہ لوگ اسلام میں داخل ہو گئے ۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے
مرا بنگر کہ در ہندستان دیگر نمے بینی برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است
اس شعر میں برہمن زادہ کا لفظ سننے والوں کو بُرا نہیں لگتا۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے برہمن زادہ اور کا فرزادہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ لیکن اگر اقبال کے اس شعر کو بدل کر اس طرح کہا جائے:
کا فرزادہ ، رمز آشنائےروم و تبریز است
اگر شعر میں تبدیلی لائی جائے تو تمام اقبال پسند لوگ غصہ ہو جائیں گے ۔ کیونکہ برہمن ایک سادہ لفظ ہے، جب کہ کافر استعمال کے اعتبار سے ایک تحقیری لفظ بن گیا ہے۔
کمیونسٹ اور بورژوا کی تقسیم نے بیسویں صدی میں غیر کمیونسٹ دنیا کو کمیونسٹ لوگوں سے متنفر کر دیا تھا۔ یہی معاملہ اب مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مومن اور کافر کی تقسیم نے غیر مسلم دنیا کو مسلمانوں سے بیزار کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ اب اشوک سنگھل اور پروین تو گڑیا جیسے لوگ یہ مانگ کرنے لگے ہیں کہ اسلام پر نظر ثانی کرو اور کافر کے لفظ کو اسلام کی لغت سے خارج کرو۔ جب تک اسلام میں ریفارم نہ لائے جائے مسلم اور غیر مسلم معتدل طور پر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ۔
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اشوک سنگھل اور پروین تو گڑیا جیسے انتہا پسند لوگوں کا نہیں ہے، بلکہ اب وہ خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے صنعتی سماج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں تعلیم یافتہ مسلمان عام طور پر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ کافر کے رواجی تصور کے ساتھ مشترک سماج میں معتدل طور پر نہیں رہ سکتے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام نے موجودہ زمانہ میں اپنا ریلیونس (relevance) کھو دیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اسلام کو لے کر وہ آج کے سماج میں عزت کے ساتھ کس طرح رہیں۔
دہلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ ان سے اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری پیدائش اگر چہ مسلمان کے گھر میں ہوئی مگر اب اسلام پر میرا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب ڈیموکریسی ( جمہوریت ) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانیت کو مومن اور کافر کے دو نا مساوی طبقوں میں بانٹتا ہے۔ جب کہ ڈیموکریسی سارے انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میرے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوگا تو میں اس کے کان میں اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پر و فیسر کو بلاؤں گا جو بچہ کے کان میں کہے گا ڈیموکریسی، ڈیموکریسی ڈیموکریسی۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر کا مسئلہ صرف غیر مسلم لوگوں کا مسئلہ نہیں ۔ اب جدید سماج میں وہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور اس کے صحیح مفہوم کو سامنے لایا جائے تا کہ اسلام لوگوں کو وقت کا مذہب معلوم ہو اور مسلم اور غیر مسلم دونوں جدید سماج میں معتدل طور پر دوسروں کے ساتھ رہ سکیں۔ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ رواجی تصور میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کافر اور غیر مسلم دونوں ہم معنی الفاظ ہیں ۔ جو لوگ مسلمان نہیں وہ سب کے سب کافر ہیں۔ یہ بلا شبہ ایک غلط تصور ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کا لفظ غیر مسلم کے مترادف نہیں
The word Kafir is not synonymous with non-Muslim.
