نا قابلِ معافی
حدیث میں آیا ہے کہ ایک لڑائی میں ایک مسلمان کے سر پر زخم آگیا۔ وہ زخمی حالت میں تھا کہ اگلی صبح کو اسے غسل کی حاجت ہوئی ۔ پانی سر پر ڈالنا سخت مہلک تھا۔ اس نے دوسرے مسلمان ساتھیوں سے مسئلہ پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی موجودگی میں ہم تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ مذکورہ مسلمان نے جب دیکھا کہ دوسری کوئی راہ نہیں ہے تو اسی حالت میں اس نے غسل کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی حالت نازک ہو گئی اور وہ مر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ کو بے حد دکھ ہوا۔ آپ نے فرمایا — قَتَلوهُ قَتَلَهُمُ اللهُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر336)۔یعنی، انہوں نے اس کو ہلاک کر ڈالا ،خدا انہیں ہلاک کرے۔
مذکورہ مسئلہ واضح طور پر اجتہادی تھا۔ اس کے باوجود آپ نے ان کے بارے میں اتنے سخت الفاظ فرمائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اجتہاد میں غلطی کی معافی کی بھی ایک حد ہے۔ عام حالات میں اجتہادی خطا پر پکڑ نہیں ہے ۔ مگر جب معاملہ زیادہ نازک ہو، جب ایسا مسئلہ در پیش ہو جس سے آدمی کی زندگی اور موت وابستہ ہو جائے تو ایسی حالت میں اجتہادی رائے پیش کرنے سے بچنا چاہیے ۔ ایسے موقع پر اجتہادی رائے دینا اور اس پر اسرار کرنا بے حسی کی بات ہے اور بے حسی ایمان کی موت کی نشانی ہوتی ہے۔
اوپر کی حدیث صرف ایک ایسی اجتہادی غلطی سے متعلق ہے، جس کا نقصان انفرادی سطح پر ظاہر ہوا ہو۔ پھر یہی بات مزید شدت کے ساتھ ان واقعات کے بارے میں صادق آتی ہے جب کہ کوئی قائد ِملت کسی ایسی اجتہادی رائے پر زور دے جس کا نتیجہ ملت کے لیے اجتماعی ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوا ۔
’’غسل کے وقت آدمی کا رخ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو‘‘ اس مسئلہ میں مفتی اگر غلط فتوی دیدے تو اس میں کسی کے لیے جان و مال کے نقصان کا اندیشہ نہیں۔ مگر ایک شخص جو شدید طور پر زخمی ہے وہ غسل کرے یا نہ کرے اس معاملہ میں غلط فتویٰ سے آدمی کی جان خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے دونوں قسم کے مسائل پر غلطی کا معاملہ یکساں نہیں ہے۔
پہلی قسم کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جس میں اجتہادی غلطی پر بھی آدمی کو حسن نیت کا ثواب مل سکتا ہے۔ مگر دوسری قسم کے مسئلہ میں اجتہادی غلطی کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ نازک معاملات جن کے ساتھ فرد اور قوم کی قسمتیں ہوں، ان میں مفتی کے لیے لازم ہے کہ وہ آخر وقت تک چپ رہے ۔ اور اگر بولے تو اس وقت بولے جب کہ فی الواقع وہ خدا کے سامنے اس کے لیے بری الذمہ ہو چکا ہو (الرسالہ، ستمبر 1983)۔
