کریڈٹ کا مسئلہ
کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو۔ دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو۔ ان میں سے ایک کردار کو داعی کہہ سکتے ہیں دوسرے کردار کو مدعو کہہ سکتے ہیں۔
کافر ایک انفرادی کردار ہے، کا فر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں ۔ کسی گروہ کافر قرار پانا ایک بے حد غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس کا مطلب ایک کو انکار کی بنا پر ڈس کریڈٹ (discredit) کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بنا پر کریڈٹ دینا ہے۔ اس کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے۔
اس دعوتی محنت کا معیاری نمونہ پیغمبر اسلام ﷺ کا تیرہ سالہ مکی دور ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَان اس طرح تیرہ سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت اتری: قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ ۔ اس وقت بھی یہ ایک براہ راست خدائی اعلان تھا، نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب۔ اس اصول کے مطابق ہندستان کے ہندو یا دوسرے ملکوں کے غیر مسلم کی حیثیت اسلامی نقطۂ نظر سے صرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کافر یا کفار نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ ہندوؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکّی معیار کی تیرہ سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔ اسی طرح انہیں منکر قرار دینا بھی درست نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نزاعات ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے بارے میں جو شکایتیں ہیں وہ سب کی سب قومی اور مادّی ہیں۔ یہ تمام تر اسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خود غیر مسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں۔ ان نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کو دو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان ان سے ان دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیں۔
