غلو نہیں

        قرآن( 4:171) میں اہل کتاب کے تذکرہ کے ذیل میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنے دین میں غلونہ کرو( لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ)۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے کہ تم لوگ دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں: إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ(مسند احمد ، حدیث نمبر 1851)۔

غلو کا مطلب ہے زیادہ ہونا، حدسے تجاوز کرنا۔ حدیث کے مطابق، ہر قسم کے معاملات میں تو سط اور اعتدال کی راہ ہی درست راہ ہے۔ اعتدال یامیانہ روی کا طریقہ ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور غلو کاطریقہ ہمیشہ نقصان اور ناکامی کی طرف ۔ یہ خود فطرت کاقانون ہے۔ اسی لیے عالمی سطح پر اس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ انگریزی کاایک مقولہ ہے کہ زیادتی ہر چیز میں بری ہے

An excess of everything is bad.

غلو کا تعلق ہر معاملہ سے ہے۔ مثلاً عقیدہ میں پختہ ہو نا بہت اچھی بات ہے مگر عقیدہ کے کھلے اظہار میں اگر جان کاخطرہ ہو تو ایسی حالت میں اپنی جان بچا نے کے لیے اخفاکا حکم دیا گیا ہے۔ نماز اور روزہ ، ذکر اور تلاوت قرآن، سب مطلوب اعمال ہیں۔ مگر ان کی غیرمعتدل کثرت مطلوب نہیں۔ امربالعروف اور نہی عن المنکر بلا شبہ ضروری اعمال میں سے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اس کو تشدد کی حد تک لے جائے تو وہ درست نہ ہوگا۔

یہی معاملہ اخلاقی اصولوں کا بھی ہے۔ مثلاً خود اعتمادی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے۔ لیکن خود اعتمادی اگر کسی کو غیر حکیمانہ اقدام تک لے جائے تو وہ پسند یدہ نہ ہوگا۔ عزتِ نفس اور خوداری بلا شبہ پسندیدہ اعمال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اگر عزتِ نفس کسی کو اس حد تک لے جائے کہ وہ اس کی لیے اپنی غلطی کے اعتراف میں رکاوٹ بن جائے تو وہ بھلائی نہیں رہے گی بلکہ ایک برائی بن جائے گی ۔

اسی طرح یہ ایک اچھی صفت ہے کہ آدمی کسی کی مددنہ لے، وہ کسی کا احسان لینا گوار ہ نہ کرے۔ وہ اپنی کفالت آپ کرنا چاہے۔ لیکن کسی کایہ مزاج اگر اس کے اندر فخر اور بڑائی کاجذبہ پیدا کرنے کا سبب بن جائے تو یہ اس کے حق میں ایک بری عادت ہو گی، نہ کہ کوئی اچھی عادت۔

آدمی کی یہ کمزوری ہے کہ کسی چیز میں کوئی امتیازی پہلو دیکھتا ہے تو اس کے بارے میں مبالغہ آمیز تصور قائم کر لیتا ہے۔ وہ اس کامقام متعین کرنے میں حد سے آگے نکل جاتا ہے اسی کانام غلو ہے۔ شرک اور شخصیت پر ستی کی تمام قسمیں اصلاً اسی غلو کی پیداوار ہیں۔

دین میں غلو یہ ہے کہ دین میں کسی چیز کاجودرجہ ہے، اس کو اس کے واقعی درجہ پر نہ رکھاجائے۔ بلکہ اس کو بڑھا کر زیادہ بڑادرجہ دینے کی کوشش کی جائے— اللہ اپنے ایک بندے کو باپ کے بغیر پیدا کر ے تو کہہ دیاجائے کہ یہ خداکابیٹا ہے۔ اللہ کسی کو کوئی بڑامر تبہ دیدے تو سمجھ لیاجائے کہ وہ کوئی مافوق شخصیت ہے اور بشری غلطیوں سے پاک ہے۔ دنیا کی چمک دمک سے بچنے کی تاکید کی جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کر ترک دنیا تک پہنچا دیا جائے زندگی کے کسی پہلو کے بارے میں کچھ احکام دیے جائیں تو اس میں مبالغہ کر کے اسی کی بنیاد پرایک پورادینی فلسفہ بنا دیاجائے۔

اس قسم کی تمام صورتیں جن میں کسی دینی تعلیم کو اس کے واقعی مقام سے بڑھا کر مبالغہ آمیز درجہ دیا جائے تو وہ غلو کی فہرست میں شامل ہوگا (الرسالہ، جنوری 1999)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom