مناظره

بر صغیر ہند میں برٹش حکومت کے زمانہ میں اہل اسلام کے درمیان ایک مبتدعا نہ رواج ظہور میں آیا جس کو مناظرہ کہا جاتا ہے۔ ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان دعوت کے بجائے مناظرہ بازی شروع ہوئی جس نے دونوں فرقوں کے درمیان غیر معتدل فضا پیدا کرنے کا کام کیا۔ مسلمان مناظر نے ہندو کے خلاف کتاب لکھی اور اُس کو کفر توڑ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد ہندو مناظر نے مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھی جو کفر توڑ کا بھانڈہ پھوڑ کے نام سے شائع کی گئی ۔

اسلام کا طریقہ دعوت ہے، جو نصح ( خیر خواہی ) اور شفقت اور یک طرفہ صبر کے اصول پر جاری ہوتا ہے۔ جب کہ مناظرہ (debate) کا مقصد فریق ثانی کو شکست دینا ہوتا ہے۔ مناظر کا نشانہ فریق ثانی کو ہرانا ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ اس قسم کی زبان بولتا ہے کہ ان کے اوپر بلڈوزر چلا دو

Bulldoze them all.

 اس سے دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔

دار الدعوه

دار الكفريا بلاد الكفار کے الفاظ عباسی دور میں استعمال کیے گئے ۔ اس سے پہلے یہ اصطلاحیں اہل اسلام کے درمیان رائج نہ تھیں ۔ میر ے نز دیک یہ اضافہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ملک ہو اس کو دار السلام کہا جائے اور بقیہ تمام ملکوں کو دار الدعوہ کہا جائے۔ دار السلام کے سوا ہر ملک دارالدعوہ ہے خواہ وہ مسلمانوں کے حق میں بظاہر دشمن ہی کیوں نہ ہو۔

قرآن میں پیغمبر اسلام ﷺ کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا (6:93)۔ یعنی، یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے برکت والی ہے، تصدیق کرنے والی اُن کی جو اس سے پہلے ہیں ۔ اور تاکہ تو ڈرائے امّ القری کو اور اس کے آس پاس والوں کو ۔

قرآن کی اس آیت میں امّ القری سے مراد مکہ ہے۔ جب یہ آیت اتری، اُس وقت مکہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کو بتوں کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکہ کودار الكفريا مدينة الكفر نہیں کہا گیا بلکہ ام القری کہا گیا اور وہاں انذار ،بالفاظ دیگر، دعوت کا حکم دیا گیا۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو، وہ اسلامی اصطلاح میں دار الدعوه یا دار الانذار قرار پائیں گے۔ ایسے کسی بھی مقام کے لیے دار الکفر یا بلاد الكفار جیسے الفاظ کا استعمال درست نہ ہوگا۔

 کسی ملک کا حوالہ جب جغرافی اعتبار سے دینا ہو تو اس کا ذکر اس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طور پر معروف ہے۔ مثلا ًسری لنکا کو سری لنکا اور جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا۔ اور جب اہل اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اس کو دارالدعوہ کہا جائے گا ۔ دارالدعوہ کا لفظ جغرافی تقسیم کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ اہل اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے (الرسالہ، دسمبر 2003)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom