عورت جنگ میں
روسی زبان میں ایک کتاب عورتوں کے بارے میں چھپی ہے جس کا انگریزی ترجمہ ماسکو سے شائع کیا گیا ہے ۔ کتاب کی تفصیل یہ ہے :
S. Alexiyerich, War's Unwomanly Face, Progress Publishers, Moscow
دوسری عالمی جنگ (۱۹۴۱) چھڑی تو روسی حکومت نے اپنے شہریوں سے جذباتی اپیلیں کیں اور مادرِ وطن (Motherland) کو بچانے کا نعرہ دیا۔ اس سے متاثر ہو کر جو روسی نوجوان فوج میں بھرتی ہوئے ان میں ۸ لاکھ (800,000) عورتیں تھیں جن کی عمریں ۱۵- ۱۶ سال کے درمیان تھیں ۔ مذکورہ کتاب انھیں خواتین سے متعلق ہے۔ خاتون مصنف نے اپنی ۴ سالہ تحقیق کے دوران ایک سو شہروں کا سفر کیا ، انھوں نے دو سو شریک ہونے والی عورتوں کا انٹرویو لیا۔
یہ کتاب مذکورہ عورتوں کے بارے میں بہت سبق آموز معلومات پیش کرتی ہے۔ مثلا ً کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کے بعد اکثر عورتوں نے اس حقیقت کو چھپانا شروع کیا کہ وہ جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔" ہم نے چاہا کہ دوبارہ عام لڑکیوں کی طرح ہو جائیں ، شادی کے قابل لڑکیاں":
We wanted to become ordinary girls again. Marriageable girls.
کتاب کی مصنف جنگ میں شریک ہونے والی ایک تعلیم یافتہ خاتوں سے ملیں جن کا نام و یرا سفرموناڈوڈوا(Vera Safrmovna Davdova) تھا ۔ انھوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات کتاب کے بیان کے مطابق، یہ تھی کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ جنگ میں عورتوں کا رد عمل مکمل طور پر مردوں سے مختلف تھا۔ مردوں کا فیصلہ کسی تجربہ کے بارے میں زیادہ وقتی اور مبنی بر حقیقت ہوتا تھا۔ جب کہ عورتیں بہت زیادہ جذباتی انداز میں اپنا رد عمل ظاہر کرتی تھیں :
She believes that women reacted to war in a completely different way from men. The men were more matter-of-fact and casual about the experience, whereas the women reacted in an overwhelmingly emotional manner.
موجودہ زمانے میں عورتوں کی فطرت اور ان کی پیدائشی صلاحیت کے بارے میں کثرت سے تحقیقات کی گئی ہیں۔ عورت کی صنف کو خالص سائنسی اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تحقیقات کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر عورت کے بارے میں اسلام کے نقطہ ٔنظر کی تائید کرتی ہیں ۔
جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ عورت پیدائشی طور پر زُود حِس ہے ۔ وہ مرد کے مقابلے میں جذباتی (Emotional) واقع ہوئی ہے۔ یہ دریافت واضح طور پر بتاتی ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ایسے شعبوں میں داخل کرنا درست نہیں جہاں ٹھنڈے ذہن کے تحت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہو۔ جہاں حالات کا تاثر قبول کیے بغیر رائے قائم کرنا پڑے۔ جہاں" مردانگی" کی ضرورت ہو نہ کہ "نسوانیت " کی۔
سیاست کا شعبہ ، جنگ کا میدان ، بین اقوامی معاملات ، عدالتی قضیے ، بڑے بڑے صنعتی منصوبے ، اس طرح کے تمام شعبوں میں ذہنی ڈسپلن اور غیر جذباتی فیصلوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے ۔ ان امور میں وقتی محرکات سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرنا پڑتا ہے ۔ اور ایسے تمام مواقع پر عور تیں اپنی فطری جذباتیت کی بنا پر غیر موزوں ثابت ہوتی ہیں۔ جب کہ مرد نسبتاً غیر جذباتی ہونے کی بنا پر زیادہ بہتر ردِّ عمل پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔
عورت اور مرد کا یہی پیدائشی فرق ہے جس کی بنا پر اسلام میں دونوں کا میدانِ کار الگ الگ رکھا گیا ہے ۔ یہ درجہ کے فرق کی بات نہیں ہے بلکہ عمل کے میدان میں فرق کی بات ہے۔ یہ تفریق سائنسی تحقیقات کے عین مطابق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملےمیں نام نہاد آزادیٔ نسواں کے علمبرداروں کا طریقہ غیر سائنسی ہے نہ کہ اسلام کا طریقہ ۔