ایک اور اقلیت
مسٹر بی ایم بھاٹیا کا ایک مضمون ٹائمس آف انڈیا (۲ جنوری ۱۹۸۹) میں شائع ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا ––––– ہندستان میں دو قو میں ہیں ، ایک مغربی تعلیم یافتہ، اور دوسرے بقیہ لوگ :
Two Nations in India: Western Educated and Others
مضمون میں بتایا گیا تھاکہ مارکس نے صاحب جائداد اور بے جائداد کی بنیاد پر انسانوں کو دو طبقےمیں تقسیم کیا ہے۔ ہندستان میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں۔ البتہ ایک اور تقسیم ہے جس نے ہندستان کو ایک طبقاتی سماج (Class society) بنا دیا ہے۔ ان میں سے ایک انگریزی تعلیم یافتہ مغربی طبقہ (English educated, westernized class) ہے ۔ اور دوسرا عوام کا طبقہ جاہل یا غیر انگریزی تعلیم یافتہ ہے۔ ثانی الذکر طبقہ ملک کی ۸۰ فی صد آبادی پر مشتمل ہے ۔ جب کہ اول الذکرطبقہ بمشکل پوری آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ ہے۔
ملک کی دولت کا ۵۰ فی صد حصہ اسی ۲۰ فی صد آبادی کے پاس ہے ۔ وہی انتظامی عہدوں پر قابض ہے ، اسی کے ہاتھ میں ملک کی صحافت ہے ۔ وہی تمام علمی اور تعلیمی اداروں پر چھایا ہوا ہے۔ و ہی عملاً ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر ، پورے ملک کو چلا رہا ہے۔ ہندستان میں انگریزی تعلیم برٹش انڈیا کمپنی نے ۱۸۳۵ میں شروع کی تھی۔ اب ڈیڑھ سو سال بعد یہ طبقاتی عمل اپنی آخری حد (Culmination) پر پہونچ چکا ہے۔ ۱۹۴۷ میں ہندوستان کی آزادی طبقاتی تقسیم کے اس عمل کو روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔ (صفحہ۶)
اس واقعہ کا ایک پہلو وہ ہے جس کو مسٹر بھاٹیا نے بیان کیا ہے ۔ تاہم اس میں ایک خوش آئند پہلو بھی ہے۔ اس تقسیم نے اس ملک میں کسی حقیقی اصلاحی کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ آپ یہاں کی آبادی کے ۲۰ فی صد حصہ پر کام کر کے پوری آبادی تک پہونچ سکتے ہیں ۔ آپ غالب اقلیت پر براہ راست اشاعتِ افکار کا کام کیجئے ، اور بقیہ ۸۰ فیصد اکثریت تک آپ کی دعوت بالواسطہ انداز میں پہونچ جائے گی –––––– ہر تاریک پہلو میں ایک روشن پہلو چھپا ہوا ہوتا ہے، بشرطیکہ استعمال کرنے والے اس کو استعمال کر سکیں ۔