قربانی کا تصور اور ہمارا معاشرہ
عید اضحی کے موقع پر ہر سال جو قربانی کی جاتی ہے ، اس کا تعلق انسانی زندگی سے بہت گہرا ہے۔ وہ صحت مند زندگی کی تعمیر کی علامت ہے ۔ مگر موجودہ زمانے میں قربانی ایک سالانہ رسم بن کر رہ گئی ہے۔ اب وہ ایک بے روح مذہبی روایت کے طور پر زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سال کے مخصوص دنوں میں رسمی طور پر جانور تو ذبح کر دیتے ہیں۔ مگر اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نظر نہیں آتا۔ قربانی کا عمل اگر زندہ اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو ہماراپورا معاشرہ بالکل بدل جائے۔
قرآن میں قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اللہ کو اس کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا ، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے (الحج:37 ) گوشت اور خون جانور کے جسم میں ہوتا ہے جس کو ذبح کیا جاتا ہے۔ اور تقویٰ اس آدمی کے دل کی چیز ہے جو ذبح کرنے والا ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاھر اگر چہ جانور کو خدا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، مگر یہ حقیقۃ ً اپنے آپ کو خدا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قربانی جانور کا ذبیحہ نہیں بلکہ خود اپنا ذبیحہ ہے۔ یہ ذبح ہونے والے سے زیادہ ذبح کرنے والے کی تصویر ہے۔ بظاہر وہ ایک خارجی عمل ہے مگر باعتبار حقیقت وہ ایک اندرونی عمل ہے۔ اسی شخص کی قربانی صحیح قربانی ہے جس کی ظاہری قربانی اس کی اندرونی قربانی میں ڈھل جائے۔
جانور کو ذبح کر کے آدمی اپنے اس ارادہ کا اظہار کر تا ہے کہ وہ خدا کی خاطر اپنی انا کو ذبح کرے گا۔ وہ اپنے مفادات کو قربان کر کے سچائی کے طریقہ پر قائم رہے گا۔ وہ مصلحتوں کو نظر انداز کر کے خدا کے حکم پر چلنے والا بنے گا۔ اس کا نفس اگر خدا کے راستہ میں چلنے میں رکاوٹ بنے گا تو وہ اپنے نفس پر چھری چلا دے گا مگر خدا کے راستہ سے ہٹنا گوارہ نہیں کرے گا۔
ایک اور مقام پر قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ( الکوثر) یہ آیت ایک اعتبار سے ، دین کے دو پہلوؤں کو بتاتی ہے۔ ایک عجز و تواضع ، اور دوسرےایثار و قربانی۔ نماز عجز کی علامت ہے اور جانور کا ذبیحہ قربانی کی علامت ۔یہ گویا دو بنیادیں ہیں جن کے اوپر پورے دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔
ایک اعتبار سے اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں عجز مطلوب ہے، اور بندوں کے مقابلہ میں قربانی درکار ہے۔ اللہ بڑا ہے ، ہم چھوٹے ہیں۔ اللہ دینے والا ہے۔ ہم پانے والے ہیں۔ اللہ آقاہے ۔ ہم اس کے بندے ہیں۔ اس اعتبار سے اللہ کے مقابلہ میں واحد چیز جو مطلوب ہو سکتی ہے، وہ عجز و تواضع ہی ہے۔ یہاں بندے کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بے کمال ہونے کو مانے ، وہ اللہ کے مقابلہ میں عاجزی اور فرماں برداری کا طریقہ اختیار کرے۔
قربانی کا عمل کئی اعتبار سے بندوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ اس اخلاقی برتاؤ اور انسانی سلوک کا خلاصہ ہے جو قربانی کرنے والے کو اپنے معاشرہ کے اندر پیش آتا ہے۔
قرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے لٹانا چاہا تو حضرت اسماعیل نے اپنے مقدس باپ سے کہا کہ آپ کو خدا کی طرف سے جو حکم ملا ہے ، اس کو کر ڈالیے ، ان شاء اللہ آپ مجھ کو صبر کرنے والا پائیں گے (الصافات ۱۰۲)اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کی حقیقت صبر ہے۔ قربانی اس کے بغیر انجام نہیں پاسکتی کہ آدمی پوری طرح صبر و برداشت کرنے والا بن جائے۔ قربانی کر کے آدمی علامتی طور پر اپنے اس ارادہ کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں حضرت اسماعیل کی طرح صبر کرنے والا بنے گا۔
صبراچھے معاشرہ کی واحد بنیاد ہے۔ صبر کے بغیر کبھی صالح اور صحت مند معاشرہ نہیں بن سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بہت سے آدمی مل کر رہتے ہیں تو ان میں بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو ایک دوسرے کے لیے ناخوش گواری کا باعث ہوتی ہیں۔ ایسا ایک گھر کےاندر بھی ہوتا ہے۔ ایک بستی میں بھی ہوتا ہے اور ایک پوری قوم میں بھی ہوتا ہے۔ ایک کمرہ میں پتھر کے بہت سے اسٹیچور کھے ہوئے ہوں تو ان کے درمیان آپس میں کبھی ٹکر اؤ نہیں ہوگا ۔ مگر جہاں زندہ انسان بستے ہوں وہاں اختلاف اور شکایت کا پیش آنا ضروری ہے۔
ایسی حالت میں معاشرہ کو انتشار اور فساد سے بچانے کا واحد راز یہ ہے کہ اس کے افرادکے اندر صبر کا مادہ ہو۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی ناگواریوں کو برداشت کرلیا کریں۔ لوگ شکایتوں سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔
يہ صبر ہمیشہ قربانی مانگتا ہے۔ قربانی کے بغیر صبر و بر داشت کارویہ ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کے اندر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے رویہ سے کسی کے وقار کو ٹھیس لگتی ہے ۔ کسی کا سلوک کسی کی انانیت کو بھڑکا دیتا ہے۔ کسی کی کوئی روش کسی کے لیے اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسے ہر موقع پر گویا آدمی کے اندر ایک حیوان جاگ اٹھتا ہے۔ اب آدمی کو اپنے اندر جاگنے والے اس حیوان کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس اندرونی حیوان کی قربانی ہی در اصل حقیقی قربانی ہے۔ کیوں کہ اسی قربانی سے سچی حق پرست زندگی کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ صالح معاشرہ بنتا ہے جس کو حقیقی معنوں میں صالح اور صحت مند معاشرہ کہاجاسکے۔
اختلاف اور شکایت کے مواقع پر جاگنے والے اندرونی حیوان کو ذبح کرنا ہی وہ اصل قربانی ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اس قربانی کو پیش کر کے آدمی اس اعلیٰ عمل کا ثبوت دیتا ہے جس کو قرآن میں تقوی (الحج: 37 ) کہا گیا ہے۔
جب آدمی اس نفسیاتی حیوان کی قربانی دیتا ہے، اس کے بعد ہی اس کے اندر وہ مطلوب صفت پیدا ہوتی ہے جس کو صبر کہا گیا ہے۔ صبر و بر داشت اور عفو و اعراض صالح معاشرہ کے قیام کے لیے ناگزیر طور پر ضروری ہیں۔ اور یہ صفتیں اندرونی حیوان کو ذبح کرنے کےبعد ہی حقیقی طور پر کسی کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔
قرآن میں قربانی کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لوگ حج کے لیے آئیں اور چند معلوم دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں دئے ہیں۔ پس تم اس میں سے کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ (الحج : 28)
اس آیت سے قربانی کے دو مزید پہلو معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے جو چیزیں انسان کو دی ہیں ، خواہ وہ ذبیحہ کا جانور ہو یا کوئی اور ضرورت کی چیز، ان سب کو استعمال کر تے ہوئے اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ چیزوں کے استعمال پر اللہ کا نام لینا ، در اصل اس واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ یہ سب چیزیں براہ راست خدا کا عطیہ ہیں۔ اس نے انسانوں کی حاجت اور ضرورت کے لیے یہ تمام چیزیں پیدا کر رکھی ہیں۔ اب ہم سے یہ مطلوب ہے کہ ہم ان کو خدا کا عطیہ سمجھ کر انھیں استعمال کریں نہ کہ ان کو اپنی عقل یا اپنے دست و بازو کا کارنامہ سمجھ لیں۔
قربانی کے موقع پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے ، اس کے متعلق حکم ہے کہ اس کو کھاؤ اور کھلاؤ۔ اس طرح قربانی کا عمل آدمی کے اندرفیاضی اور باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اسپرٹ ابھارتا ہے ۔ وہ سبق دیتا ہے کہ تم خود کھانے پر اکتفا نہ کر و بلکہ دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ تم اپنی کمائی کو صرف اپنی چیز نہ سمجھ لو بلکہ اس میں دوسروں کا بھی حصہ سمجھو ۔ تم صرف اپنا معاملہ درست کر کے مطمئن نہ ہو جاؤ بلکہ دوسروں کے معاملات بھی درست کرنے کی کوشش کرو تم ایک انفرادی انسان بن کر نہ رہو بلکہ معاشرہ کے ایک مفید فرد کی حیثیت سے زندگی گزارو۔تم انسانیت کے کُل کا ایک صالح جزء بن جاؤ۔
ان پہلوؤں کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ قربانی ایک زندہ عمل ہے ، نہ کہ محض ایک بے روح قسم کی تاریخی رسم۔ قربانی کا پیغام یہ ہے کہ اپنے وجود کے حیوانی حصہ کو دباؤ اور اپنے وجود کے انسانی حصہ کو زندہ کرو۔ یہی قربانی کی اصل حقیقت ہے اور یہی قربانی کا اصل پیغام۔
نوٹ: یہ تقریر ۱۴ جولائی ۱۹۸۹ کو آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے نشر کی گئی۔