امر المسلمين

ہندستان کے مسلم رہنما جس چیز کو مسلمانوں کے ملی مسائل کہتے ہیں ، وہ در حقیقت مسلمانوں کے قومی مسائل ہیں۔ یہ مسلمانوں کے اپنے قومی حقوق اور مادی مفادات کا جھگڑا ہے جو انھوں نے اس ملک کی حکومت اور یہاں کے اکثریتی فرقہ کے خلاف بے معنی طور پر چھیڑ رکھا ہے۔ اس قومی عمل کو اسلامی عمل ثابت کرنے کے لیے ان کے رہنماؤوں نے ایک حدیث دریافت کر لی ہے ۔ وہ حدیث یہ  ہے : مَنْ ‌لَمْ ‌يَهْتَمَّ ‌بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ ( جو شخص مسلمانوں کے معاملہ کے لیے فکر مند نہ ہو وہ ان میں سے نہیں)( المعجم الأوسط للطبراني، 7473)

ہمارے رہنماؤں نے اس حدیث سے "امرالمسلمین " کا لفظ لیا اور اس کو موجودہ مسلمانوں کے تمام قومی جھگڑوں پر منطبق کر دیا۔ مگر استدلال کا یہ طریقہ لغویت کی حد تک غلط ہے ۔ امرالمسلمین سے کون سا" امر" مراد ہے ، اس کا تعین قرآن و سنت سے ہو گا، نہ کہ موجودہ مسلمانوں کے اپنے قومی رواجوں سے ۔

اس حدیث میں امر المسلمین کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان نامی گروہ جس چیز کو بھی اپنا امر (معاملہ )سمجھ لے ، وہ مسلمانوں کا امر بن جائے گا، اور اس کے لیے فکرمند ہونا اور اس کے لیے تدبیر کرنا ضروری ہو جائے گا ۔ امرالمسلمین وہ ہے جو خدا ورسول کے نزدیک امر المسلمین ہو نہ کہ خود مسلمانوں کے نزدیک امرالمسلمین۔

مکہ کے مسلمانوں پر ہرقسم کا ظلم کیا جارہا تھا۔ انھوں نے چاہا کہ اپنی مظلومیت کو ختم کرنے کے لیے  ظالموں سے جنگ کریں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امر المسلمین نہیں مانا اور انکو  یک طرفہ طور پر صبر کرنے کا حکم دیا۔ حدیبیہ کے معاہدہ کی دفعات صحابہ کرام کو" ملی غیرت" کے خلاف معلوم ہوئیں۔ انھوں نے چاہا کہ اسے رد کر دیں اور قریش سے لڑیں ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امر المسلمین تسلیم نہیں کیا اور لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اس معاہدہ کو قبول کرلیں۔ فتح مکہ کے بعد مہاجرین نے چاہا کہ مکہ میں اپنے چھوڑے ہوئے مکانوں پر دوبارہ قبضہ کریں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی امرالمسلمین کی حیثیت نہ دی اور مہاجرین کو حکم دیا کہ وہ اپنے مقبوضہ مکانوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر مدینہ واپس چلے جائیں، وغیرہ وغیرہ

 اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ کسی امر کا امر المسلمین ہو نا خدا   و   رسول کی مرضی سےطے ہوگا نہ کہ خود مسلمانوں کی اپنی خواہشات یا اپنی رایوں سے۔

مسلمانوں کے ساتھ پہلے بھی معاملات پیش آئے ہیں اور آئندہ بھی پیش آئیں گے۔ مگران معاملات کے مقابلے میں مسلمانوں کی روش کیا ہو ، اس کا فیصلہ مسلمانوں کی اپنی مرضی سے نہیں ہوگا۔ بلکہ کتاب وسنت کے بے لاگ مطالعہ سے یہ معلوم کیا جائے گا کہ کس معاملے میں کون سی روش اختیار کی جائے۔

ہندستان کے مسلمان اس وقت دو قسم کے مسائل سے دوچار ہیں ۔ ایک ،ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کے فرقہ وارانہ جھگڑے۔ دوسرا، مسلمانوں کے باہمی اختلافات۔ ان دونوں معاملات میں قرآن وسنت کی واضح رہنمائی موجود ہے۔ مسلم رہنما اگر ان معاملات میں مذکورہ حدیث پر عمل کرناچاہتے ہیں تو ان کو وہی کام کرنا چاہیے جس کا حکم قرآن و حدیث میں دیا گیا ہے ۔

"ہند و مسئلہ" کے متعلق بنیادی بات یہ ہے کہ ہندو ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ مدعو ہوں، ان کے بارے   میں حکم ہے کہ ان سے نہ مادی اجر طلب کرو اور نہ ان سے قومی نزاع برپا کرو۔ حتی کہ داعی کے اوپر فرض ہے کہ وہ مدعو کی زیادتیوں سے یک طرفہ طور پر اعراض کرے مگر ہندستانی مسلمان اس کے سراسر خلاف عمل کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں یہاں اہتمام بامر المسلمین یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ روش کی مذمت کی جائے اور ان کو صبر اور اعراض کی روش پر قائم رہنے کی تاکید کی جائے۔

اس کے برعکس اگر مسلم رہنما یہ کریں کہ وہ" ملی مسائل" کے نام پرمسلمانوں کی قومی لڑائی میں شریک جائیں۔ وہ اپنی تقریروں اور اپنے بیانات سے ان کی تصدیق اور ہمت افزائی کرنے لگیں تو یہ واضح طور پر حدیث کے مذکورہ حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔

 مسلم رہنماؤں پر فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو بتائیں کہ ہندو ان کے لیے مدعو گروہ کے حکم میں ہیں۔ ان  پر لازم ہے کہ وہ ہندوؤں سے قومی اور مادی مسائل پر ہرگز کوئی نزاع نہ چھیڑ یں۔ وہ حقوق طلبی کے بجائے محنت کشی پر اعتماد کریں۔ وہ ایک طرفہ قربانی کے ذریعہ مسلم اور ہندو کے درمیان تعلقات کو خوشگوار بنائیں تاکہ اس ملک میں دعوتی عمل کا آغاز کیا جاسکے جو مسلمانوں کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں صدیوں سے رکا ہوا پڑا ہے ۔

 "امر المسلمین " کا دوسرا پہلو وہ ہے جو مسلمانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف اپنے آخری درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔ ہر شہر، ہر محلہ ، ہر ادارےمیں اس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مسلم رہنماؤں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات اور نزاعات میں براہ راست دخل دیں اور ہر ممکن تدبیر استعمال کرکے اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

اس کوشش کا مطلب جلسہ اور تقریر نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے باہمی نزاعات جلسوں اور تقریروں سے ختم نہیں کیے جاسکتے۔ اس کی شکل صرف ایک ہے ۔ اور وہ اسلام کے اصولِ عدل کے مطابق عملی مداخلت ہے ۔ مثلاً انھیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مقام پر ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کے ساتھ غصب اور خیانت کا معاملہ کیا ہے ۔ اب تمام مسلم لیڈر وہاں پہونچ کر اس غاصب اور خائن کو پکڑیں۔ اس پر ہر قسم کا قولی اور عملی دباؤ ڈال کر اس کو مجبور کریں کہ وہ اپنے غصب اور خیانت سے باز آئے  اور حق  کو اس کے حق دار کے حوالے کرے۔

موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما من لم يهتم بامر المسلمين فليس منھم  کا حوالہ دیتے ہیں،مگروہ مذکورہ بالا دونوں کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ اپنی جھوٹی تقریروں اور سطحی بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کی لایعنی قومی مہم میں شریک ہیں۔ یہ صورت حال مذکورہ حدیث کے سراسر خلاف ہے۔ مسلم رہنماؤں نے اگر اپنی موجودہ روش نہ بدلی تو شدید اندیشہ ہے کہ ان کا موجودہ عمل سرکشی اور فساد انگیزی کے خانے میں لکھا جائے نہ کہ خدا   و رسول کے حکم کی بجا آوری کے خانے میں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom