غلطی کی اصلاح

خلیفۂ ثانی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں ایرانیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ابتدائی مقابلے میں ایرانی فوجوں کو شکست ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ایرانی گھبرا اٹھے۔

 اس وقت رستم ایران کا وزیر اعظم تھا۔ اس نے اپنے فوجیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ عربوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کس ایرانی بہادر کو مقرر کیا جائے۔ سب نے بہمن جادویہ کا نام لیا۔ چنانچہ رستم نے بہمن جادویہ کو  ۱۲  ہزار فوج ۳۰۰ جنگی ہاتھی اور دوسرے ضروری سامان دے کر عربوں کی طرف روانہ کیا۔ بہمن جادویہ کو جو سامان دیے   گئے ان میں درفش کاویانی بھی تھا۔ جس کی نسبت ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ جس فوج کے ساتھ یہ جھنڈا ہو اس کو کبھی شکست نہیں ہو سکتی۔ یہ واقعہ ۱۳ ھ (۶۳۵ ء) کا ہے۔

بہمن جادو یہ چلتا ہوا دریائے فرات کے کنارے مقام ناطف میں آکر مقیم ہوا۔ دوسری طرف ابو عبید بن مسعود ثقفی اسلامی لشکر کے ساتھ فرات کے دوسرے کنارے مقام مروحہ میں مقیم تھے۔ بہمن جادویہ نے ابو عبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم دریا پار کر کے ادھر آتے ہو یا ہم دریا پار کر کے تمہاری طرف آئیں ۔ ابو عبید ثقفی نے جوش شجاعت میں یہ کہلا دیا کہ ہم دریا پار کر کے آتے ہیں ۔

اسلامی لشکر نے ایک چھوٹے پل کے ذریعہ فرات کو پار کیا ۔ جب وہ دوسری طرف پہونچے تو صورت حال یہ تھی کہ پیچھے کی طرف فرات کا چوڑا  در یا تھا جو وسیع جنگی نقل و حرکت میں مانع تھا۔ دوسری طرف سامنے بہمن جادویہ کا مسلح لشکر تھا جس کے آگے جنگلی ہاتھی صف باندھ کر کھڑے ہوئے تھے۔ اوران ہاتھیوں پر تیر انداز بیٹھے ہوئے تھے تاکہ وہ لشکر اسلام پر بھر پور تیروں کی بارش کر سکیں ۔

 مسلمان اس وقت گھوڑوں پر تھے ۔ ان کے گھوڑوں نے اس سے پہلے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کے گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر بدکنے لگے۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ان کے گھوڑے ان کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو وہ گھوڑوں سے کود کر زمین پر آگئے اور پیادہ پالڑ نے لگے ۔ مگر یہ طریقہ مزید خطرناک ثابت ہوا۔ ہاتھیوں نے جب آگے بڑھ کر مسلمانوں کی صفوں پر حملہ کیا اور انہیں کچلنا شروع کیاتو مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہونے لگیں ۔

اس خونی معرکہ کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے کئی سردار اور خود ابو عبیدمسعود ثقفی کو ہاتھیوں نے اپنے پیروں کے نیچے کچل دیا۔ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا چاہا توو ہاں دریا ان کی راہ میں حائل تھا۔ چنانچہ بہت سے لوگ دریا میں غرق ہو گئے۔ مسلم فوجیوں کی تعداد اس وقت  ۹  ہزار تھی۔ اس میں سے تقریباً  ۶  ہزار افراد جنگ میں کام آگئے   ۔

مسلمانوں کی بچی کھچی فوج دریائے فرات کے دوسری طرف جمع ہوئی ۔ اب ایک صورت یہ تھی کہ ان کے شاعر اور خطیب اٹھتے اور اپنی شکست کو شہادت قرار دے کر اس کو گلوریفائی کرتے۔ جیسا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کرتے ہیں ۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس انھوں نے پورے معاملہ   پرنظر ثانی کی اور اس کا اعتراف کیا کہ دریا کے اُس پار میدان جنگ بنا کر انھوں نے غلطی کی تھی۔

 اب ایک طرف مسلمان مزید فوج جمع کرکے تیاری کرنے لگے ، اور دوسری طرف ایرانیوں نےاپنے سردار مہران ہمدانی کو سالارِ جنگ بنا کربہت بڑی فوج کے ساتھ دوبارہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ مہران ہمدانی جب فرات کے کنارے پہونچا تو اس نے مسلم فوج کے سردار مثنی کو دوبارہ  یہ پیغام بھیجا کہ تم دریائے فرات کو پار کر کے ہماری طرف آتے ہو یا ہم دریائے فرات کو پار کر کے تمہاری طرف آئیں۔ مسلم سردار نے دوبارہ وہ غلطی نہیں کی جو پہلی باران سے ہو گئی تھی۔ انھوں نے کہلا دیا کہ تم ہی فرات کو عبور کر کے ہماری طرف آؤ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

اب دونوں فوجوں میں جب لڑائی ہوئی تو معاملہ برعکس تھا۔ ایرانی فوج کے پیچھے دریا تھا اور سامنے اسلامی لشکر۔ دوسری طرف اسلامی لشکر کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے آگے ایرانی فوج تھی اور پیچھے کھلی ہوئی زمین ۔ اس طرح میدان مقابلہ ایرانیوں کے خلاف اور مسلمانوں کے موافق ہو گیا، ایرانی فوج نے حسبِ سابق زبردست حملے کیے۔ انھوں نے اپنے ہاتھیوں کو بھی استعمال کیا مگر آخر کار انہیں شکست ہوئی۔ اسلام کے سپہ  سالارمثنی ابن حارثہ نے دریا کے اوپر لکڑی کے پل کو توڑ دیا تھا ۔ چنانچہ ایرانی فوج جب پیچھے کی طرف بھاگی تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی راہ نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی تلوار سے بچنے کی کوشش میں دریا کی موجوں میں غرق ہو جائے۔ ابن خلدون کی روایت کے مطابق ایرانی لشکر کے تقریباً ایک لاکھ آدمی مقتول ہوئے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے   لشکر میں جو لوگ اس جنگ میں کام آئے ان کی تعداد صرف ایک سو تھی۔ یہ واقعہ رمضان ۱۳ ھ میں پیش آیا ۔

شکست کے بعد فتح کا یہ عظیم واقعہ اپنی غلطی کی اصلاح کا کرشمہ تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom