ایک سفر
اپریل ۱۹۶۹ میں میں نے پہلی بار اَلور (راجستھان) کا سفر کیا تھا۔ اس کے بعد وہاں کے کئی سفر ہوئے۔ اس کا تفصیلی تذکرہ "میوات کا سفر" نامی کتاب میں موجود ہے۔ الور کا موجودہ سفر ۲۰ مئی ۱۹۸۹ کو ہوا ، اور ۲۵ مئی کو دوبارہ دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔
۵۰۵ سُپر فاسٹ اکسپریس شام کو دہلی سے روانہ ہوئی تو ابھی فضا میں اجالا تھا۔ دھیرے دھیرے اندھیرا ہونے لگا۔ یہاں تک کہ رات آگئی۔ اب ٹرین رات کی تاریکی میں چلنے لگی۔ راستہ میں جب کوئی چھوٹا اسٹیشن آتا تو وہ بالکل سادہ انداز میں آجاتا ۔ تاریکی میں چلتے چلتے ہم دیکھتے کہ ٹرین خاموشی سے ایک عمارت میں داخل ہو گئی ۔ جہاں چند معمولی روشنیاں بتا رہی ہیں کہ یہ ایک اسٹیشن ہے۔ مگر جب کوئی بڑا اسٹیشن آنے والا ہوتا تو اس کے بہت پہلے سے اس کے آثار دکھائی دینے لگتے۔ عمارتوں اور کارخانوں کے سلسلے نظر آتے ۔ اس کے بعد ٹرین کے دونوں طرف روشنیوں کاہجوم بتاتا کہ ہم ایک بڑے اسٹیشن پر پہونچ گئے ہیں ۔
یہی معاملہ چھوٹی یافت اور بڑی یافت کا ہے ۔ چھوٹی یافت آدمی کو اس طرح ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کوئی بڑی تمہید پیش نہیں آتی ۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدمی سادہ طور پر اس کمرہ سے نکل کر اس کمرہ میں داخل ہوگیا۔ مگر بڑی یافت ہمیشہ بڑی تمہید کے ساتھ آتی ہے۔ بڑی یافت سے پہلے طوفانی کڑک چمک کے واقعات پیش آتے ہیں۔ آدمی کی زندگی زبر دست ہل چل سے دو چار ہوتی ہے۔ آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس کا ایک دور دھماکہ کے ساتھ ختم ہوگیا، اور دوسرادور دھماکہ کے ساتھ شروع ہو گیا۔
جو لوگ معتدل زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ جو اپنے آپ کو بچا بچا کر رکھیں ، جو ہر مصلحت کا آخری حد تک لحاظ رکھتے ہوں، ایسے لوگ صرف چھوٹی یافت تک پہونچتے ہیں۔ وہ کبھی بڑی یافت سے آشنا نہیں ہوتے ۔ بڑی یافت صرف ان لوگوں کا مقدر ہے جو اپنی زندگی کو طوفانوں میں ڈالیں۔ جو ہیجان خیز لمحات سے دوچار ہونے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ زندگی کے سفر میں چھوٹے اسٹیشن بھی ہیں اور بڑے اسٹیشن بھی۔ یہ مسافر کے اپنے حوصلہ کی بات ہے کہ وہ دونوں میں سے کس اسٹیشن پر اپنے آپ کو اتارنا پسند کرتا ہے ۔
ٹرین میں تقریباً تین گھنٹہ گزارنے کے بعد میں الور پہنچا۔ یہاں اسٹیشن پر مولانا مفتی جمال الدین صاحب اور دوسرے لوگ موجود تھے ۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کرمدرسہ اشرف العلوم آیا۔ یہاںمیرا قیام اسی مدرسہ کے مہمان خانہ میں تھا ۔
الور، راجستھان کا ایک قدیم شہر ہے ۔ وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بسا ہوا ہے جس کے اوپر اب بھی ایک پرانے قلعہ کی عمارتیں دور تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ قدیم زمانے میں پہاڑی قلعے حکمرانوں کی حفاظت کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں وہ صرف ایک تاریخی دور کو یاد دلانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اگر چہ معاشی دوڑ کی مشغولیت نے بہت کم لوگوں کو اس قابل رکھا ہے کہ وہ ماضی کے ان کھنڈروں کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔
الور ۱۷۷۱ میں را جپوت حکمراں کے قبضہ میں آیا ۔ ۱۷۷۵ ء میں وہ ریاست الور کی راجدھانی بنا۔ ۱۸۰۳ میں الور برٹش اقتدار کے تحت آگیا۔ ۱۹۴۹ سے وہ راجستھان کا حصہ ہے۔
الور کے راجہ و نے سنگھ فارسی اور اسلامیات کے شیدائی تھے ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی اور دوسرے علماء عرصہ تک ان کے دربار میں رہے۔ انھوں نے تقریباً ۶۰ سال پہلے دولاکھ روپیہ خرچ کر کے گلستاں اور بوستان کا ایک نسخہ تیار کرایا تھا جس پر سنہری کام بنے ہوئے تھے ۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ۴۰ ہزار روپیہ خرچ کر کے قرآن کا ایک نسخہ تیار کرایا ۔ اس قسم کے بہت سے نو ادر آج بھی الور کے میوزیم میں موجود ہیں جو زائرین کو گزرے ہوئے ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔
۱۹۳۲ میں مہاراجہ سوائی جے سنگھ (الور ) نے اپنی کونسل میں اسپیچ دی تو انھوں نےفارسی اور اردو کے کئی اشعار پڑھے۔ صائب کا ایک شعر یہ تھا :
بہرکارے کہ ہمت بستہ گردد اگر خارے بود گلدستہ گردد
ان کا نظر یہ تھا کہ ان کی ریاست میں ہندو اور مسلمان پیار اور محبت کے ساتھ رہیں۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے دلدادہ تھے۔ اپنی اس پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کونسل کی تقریر میں یہ شعر پڑھا:
دنیا ئے جہاں میں اے یارو جو کوئی رہے دلشادر ہے
گلشن بھی رہے گلچیں بھی رہے بلبل بھی رہے صیادر ہے
مولانا مفتی جمال الدین صاحب نے بتایا کہ ایک باروہ الور کے ایک ہندو وکیل کے یہاں گئے۔ اس کے دفتر کی دیوار پر ایک خوبصورت فریم تھا۔ اس میں جلی حرفوں میں یہ فارسی شعر لکھا ہوا تھا :
بترس از خدا و میا ز ارکس رہ رستگاری ہمیں است و بس
انھوں نے مزید بتایا کہ الور میں ایک بار وہ ایک ہندو دکاندار کے یہاں گئے ۔ وہ زیادہ عمر کا تھااور پرانا زمانہ دیکھے ہوئے تھا۔ اس نے اردو کے بہت سے اشعار سنائے۔ ان میں سے ایک شعر یہ تھا:
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
الور کے مسافر کو اس طرح کے تاریخی واقعات یہاں کثرت سے سننے کے لیے ملتے ہیں۔ یہ "الور" اور اس طرح کے لاتعد اد دوسرے الور ہندستان میں موجود تھے ۔ مگر وہ ۱۹۴۷ کے انقلاب کےنتیجے میں برباد ہو کر رہ گئے ۔ مسلمان ۱۹۴۷ کے انقلاب کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ناقابل ِفہم حد تک احمقانہ قیادت کے سوا کوئی نہیں ہے جس کو اس دردناک المیہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے ۔ اس نام نہاد قیادت نے مسلمانوں کو دیا کچھ نہیں،البتہ اس کو جو کچھ حاصل تھا اس سے اسے محروم کر دیا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں الور کے تذکرہ کے تحت درج ہے کہ یہاں، دوسری تاریخی عمارتوں کے علاوہ کئی قدیم مسجدیں بھی پائی جاتی ہیں :
It contain..... several ancient mosques (1/285).
مگر یہ بیان صحیح نہیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ ۱۹۴۷ تک الور میں ایک سو سے زیادہ تعداد میں پُر رونق مسجدیں موجود تھیں۔ مگر یہ سب مسجدیں آزادی کے بعد ہونے والے فسادات کی نذر ہو گئیں۔ اب یہاںصرف دو با قا عدہ مسجدیں ہیں جو آزادی کے بعد کے دور میں از سر نو تعمیر کی گئی ہیں ۔ ایک ، مدرسہ اشرف العلوم کی مسجد، دوسرے ، میو بورڈنگ کی مسجد۔ ان کے علاوہ ایک قدیم چھوٹی سی مسجدہے جہاں ایک "شر نا رتھی" خاندان آباد ہے۔
مولانا محمد ابراہیم صاحب اور مولانامفتی جمال الدین صاحب ۱۹۴۹ میں دوبارہ الور میں آئے۔ موجودہ جگہ اس وقت چٹیل میدان کی صورت میں تھی۔ صرف کچھ ٹوٹے ہوئے پتھر اس بات کی علامت تھے کہ یہاں کبھی کوئی عمارت یا کوئی مسجد کھڑی ہوئی تھی ۔ انھوں نے ایک چھپر ڈال کر یہاں تعمیرِ نو کا آغاز کیا۔
میں پہلی بار اپریل ۱۹۶۹ میں الور آیا تھا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مولانا ابراہیم صاحب ایک نیم کے درخت کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور دور چُھپے ہوئے مستقبل کو تصوراتی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ۳۰ برس بعد آج یہاں دوبارہ ایک پورا ادارہ کھڑا ہو گیا ہے۔ مسجد اور مدرسہ کی شکل میں اسلامی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس علاقے میں چونکہ یہ واحد اسلامی ادارہ ہے،اس لیے اطراف کے مسلمان اس سے جڑ گئے ہیں ––––––– ہر بر بادی کو دوبارہ آبادی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بربادی آخری بربادی نہیں ۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے ہندستان میں یہ روایت تھی کہ مسلم ریاست میں ہندو افسران ہوا کرتے تھے، اور ہندو ریاست میں مسلم افسران۔ الور کا راجہ ایک ہندو تھا، مگر اس روایت کے تحت یہاں کے اکثر بڑے بڑے فوجی اور غیر فوجی عہدے مسلمانوں کے پاس تھے۔ شہرمیں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۵۰فی صد تھی۔ بہت سے شعبوں (مثلاً طب ، وکالت وغیرہ) پر مسلمانوں کو اجارہ داری حاصل تھی۔ مگر ۱۹۴۷ کا انقلاب آیا تو یہاں سے تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہو گیا۔ یہاں کی ۱۱۰ مسجدیں ڈھا دی گئیں۔ اب غالباً صرف ایک قدیم مسجد باقی رہ گئی ہے جو ایک "شررنارتھی "کے قبضہ میں ہے۔
ماسٹر ایوب صاحب نے الور کا سوِل ایر یا دکھایا۔ چلتے ہوئے ہم لوگ ایک مقام پر پہونچے جہاں ایک چوک پر اشوک کی لاٹ تھی اور اس کے اندر پارک بنا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے اس چوک پر ایک مسجد تھی جو ننگلی والی مسجد کہی جاتی تھی ۔ ۱۹۴۷ میں یہ مسجد ڈھا دی گئی ۔ اس کے بعد جب شہر کا ڈولپمنٹ ہوا تو مسجد کی جگہ پر سڑک بن گئی ۔
ماسٹر ایوب صاحب (سابق ایم ایل اے) نے بتایا کہ انھوں نے فروری ۱۹۷۸ میں راجستھان اسمبلی میں اس مسجد کی بابت سوال اٹھایا تھا۔ حکومت کی طرف سے جو تحریری جواب دیا گیا، اس میں کہاگیا تھا کہ مسجد کے گرنے کے بعد وہاں سڑک تعمیر ہوگئی ہے ۔ تاہم مسجد کے رقبہ کے بقدر ایک پلاٹ قریب ہی سڑک کے کنارے مسجد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پلاٹ کا نمبر بھی انھیں بتایا گیا ۔
ماسٹر ایوب صاحب نے کہا کہ وہ پلاٹ میں نے دیکھا تھا اور وہ پانچ سال سے زیادہ مدت تک مسجد کے نام پر خالی پڑا رہا۔ مگر مسلمان اس کو استعمال نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ حسبِ قاعدہ ضروری مدت گزرنے کے بعد حکومت نے وہاں اپنی تعمیرات کرالیں۔موجودہ زمانے کے مسلمان کھوئے ہوئے مواقع کے لیے فریاد کرنے میں سب سے آگے ہیں مگر ملے ہوئے مواقع کو استعمال کرنے میں وہ سب سے پیچھے ہو گئے ہیں۔
مولانا محمد حنیف خان صاحب ( پیدائش ۱۹۵۲) الرسالہ کے مستقل قاری ہیں اور اس کے نقطہ ٔنظر سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کئی تجربات بتائے ۔ ان میں سے دو یہاں نقل کیےجاتے ہیں ۔
لال داس کی درگاہ (شیر پور) میں لال داس کی قبر ہے۔ ہندو ان کو ہندو کہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔ اس درگاہ کے احاطہ میں تین مسجدیں بھی ہیں ۔ جولائی ۱۹۸۶ میں یہاں جھگڑے کی صورت پیدا ہوگئی۔ کچھ مسلمانوں نے یہاں کی ایک مسجد میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر اذان دی اور نماز با جماعت ادا کی۔ اس پر ہندوؤں کو اعتراض ہوا اور دونوں فرقوں میں لڑائی کی نوبت آگئی ۔
الور کے ہندی اخباروں (خاص طور پر الور بازار پتریکا )نے خبر کو اس انداز میں شائع کیا کہ مسلمانوں نے لال داس جی کے مندر پر قبضہ کر لیا اور اس کے اندر گھس کر زبر دستی نماز پڑھی۔ اور ہندوؤں کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ یہ خبریں چھپیں تو الور میں حالات بگڑ گئے اور فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا کہ شیر پور میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا ہے ۔
اس موقع پر مقامی مسلمانوں نے صحیح حالات مرتب کر کے مقامی ہندی اخباروں میں چھپوانا چاہا۔مگر اخباروں نے ان کے بیانات نہیں چھاپے ۔ ہندوؤں سے ملاقات کرکے زبانی وضاحت کی کوشش کی گئی تو وہ بھی بے فائدہ ثابت ہوئی۔ اس وقت کچھ مسلمانوں نے قومی ایکتا منچ کی میٹنگ کی ۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ لوگ بھی شریک ہوئے ۔
تاہم منچ کی میٹنگ میں کوئی بات طے نہ ہو سکی۔ لوگوں کے ذہنوں میں ہندی اخبارات میں چھپنے والی رپورٹیں اور افواہیں چھائی ہوئی تھیں۔ آخر میں کچھ مسلمانوں نے یہ تجویز پیش کی کہ قومی ایکتا منچ کے کچھ ذمہ دار افراد شیر پور جائیں۔ وہ اپنے ساتھ ایک پیتر کار (اخبار نویس) اور فوٹو گرافر بھی لے جائیں۔ وہ براہ راست معلومات کے ذریعہ رپورٹ تیار کریں اور جائے وقوع کا فوٹو بھی لیں۔
اس کے بعد قومی ایکتا منچ کے تحت ایک وفد شیر پور گیا ۔ وہاں اس نے براہ راست مشاہدہ کیا اور تصویریں لیں ۔ واپس آکر انھوں نے ہندی اخبار ارن پر بھا میں مفصل رپورٹ شائع کی ۔ انھوں نے بتایا کہ لال داس کی درگاہ میں باضابطہ مسجدیں ہیں اور وہاں مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ انھوں نے مسجدوں کی تصویر یں بھی چھا پیں۔ الور کے ہندوؤں نے جب اس با تصویر رپورٹ کو پڑھا تو اچانک ان کا ذہن بدل گیا۔ ہر ایک یہ کہنے لگا کہ آر ایس ایس والے ہی غلط ہیں۔ وہ جھوٹا جھگڑا کھڑا کر نا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے مان لیا کہ مسلمانوں نے کسی مندر پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔ بلکہ مسجد کے اندر پر امن طور پر نماز پڑھی ہے۔
ہندی اخباروں کی خبروں اور افواہوں کے خلاف یہاں کے مسلمان اگر مشتعل ہوتے اور تعصب کی شکایتیں کرتے رہتے تو یقینا ً الور میں فساد ہو گیا ہوتا۔ مگر جب انھوں نے دانش مندانہ تدبیر کی تو فرقہ وارانہ آگ ٹھنڈی ہو گئی ۔ اور فرقہ وارانہ فساد کے دہانہ پر پہنچنے کے باوجو الور فساد سے بچ گیا ۔
مولانا محمد حنیف خاں صاحب نے میو بورڈنگ (الور) کا واقعہ بتایا۔ وہ میو بورڈنگ کی مسجد میں امام اور خطیب ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ۱۹۸۳ میں یہاں بورڈنگ کے سامنے مسلمانوں نے کچھ چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا لیں۔ میونسپل کمیٹی کے لوگوں کو اس پر اعتراض ہوا کہ یہ سر کاری جگہ پر بلا اجازت بنائی گئی ہیں۔ انھوں نے پولیس کی مدد سے دکا نیں ہٹوا دیں ۔ میووں کا ایک وفد کلکٹر کے پاس فریاد لے کرگیا ۔ مگر کلکٹر نے ان کو سخت جواب دے کر واپس کر دیا ۔
اس کے بعد کچھ مسلمانوں نے دوسری تدبیر کی ۔ انھوں نے ہند و طلبہ (مینا برادری اور جاٹ برادری) کی ایک تعداد کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ یہ جو واقعہ ہوا ہے اس کو صرف میووں کا واقعہ نہ سمجھئے۔ آج جو کچھ میوؤں کے ساتھ ہوا ہے ، وہی کل خود آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ بات ہندو طلبہ کی سمجھ میں آگئی ۔ وہ فورا ًکلکٹر کے پاس گئے ۔ کلکٹر نے انھیں بھی سخت جواب دیا ۔ طلبہ نے کلکٹر سے کہا کہ اس کو آپ چند نوجوانوں کی بات نہ سمجھیں ۔ الور کے سات ہزاراسٹوڈنٹ ہمارے پیچھے ہیں ۔ آپ اگر سختی کرتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ کو سات ہزاراسٹوڈنٹ سے مقابلہ کرنا ہو گا ۔ اور اس معاملہ میں ہندو مسلمان سب ساتھ ہوں گے ۔ یہ دھمکی سن کر کلکٹر دب گیا اور سابقہ حکم کو واپس لے لیا ۔
اس طرح کے مواقع پر مسلمان اکثر ایسا کرتے ہیں کہ وہ پولیس سے خود لڑ جاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں کہ خود لڑنے کے بجائے برادر ان ِوطن کو سامنے کر دیں تو صورت حال یکسر بدل جائے گی ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی ہار کی تاریخ جیت کی تاریخ بن جائے گی ۔
مذکورہ واقعہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ اس طرح کے چھوٹے بڑے واقعات ہر روز اور ہر جگہ پیش آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس ملک میں کسی بھی شخص کے لیے زندگی بالکل ناممکن ہو جائے۔
مگر مسلم رہنما اس قسم کے واقعات کا چرچا نہیں کرتے اور نہ مسلمانوں کے اخبارات ان کو اپنے صفحات میں نمایاں کرتے ۔ ہمارے رہنما اور ہمارے اخبار ات دونوں صرف ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ جو بڑھتے بڑھتے گولی اور فساد تک پہونچ جائیں۔ اگر چہ فساد تک نہ پہونچنے والے واقعات سو میں ۹۹ ہوتے ہیں اور فساد تک پہونچنے والے واقعات سو میں صرف ایک–––––– " فساد ہوگیا" کی خبر ہر ایک کو معلوم ہے، مگر" فساد ہوتے ہوتے رہ گیا " کی خبر کسی کو معلوم نہیں۔
یہ کوئی سادہ سی بات نہیں۔ یہ مسلمانوں کے اندر ایک مہلک بیماری کا پتہ دیتی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ مسلمانوں کا بگاڑ اس حد تک پہونچا ہے کہ اب انھوں نے مثبت ذہن کو کھو دیا ہے ۔ وہ منفی نفسیات میں جینے والی ایک قوم بن گئے ہیں۔بغض اور نفرت اور انتقام ان کی روح کی غذا ہیں۔ محبت، درگزر ، انسانیت دوستی کی خبروں میں ان کی روح کے لیے کوئی غذا نہیں۔
الور کے متعلق عام شہرت یہ ہے کہ وہ ایک سخت متعصب علاقہ ہے ۔ مگر اس طرح کی باتیں ہمیشہ جنرلائزیشن ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تعصب ہو وہیں انصاف بھی موجود ہوتا ہے۔
یہاں لوگوں نے بتایا کہ مسٹر آروند مایا رام (IAS) الور میں کلکٹر ہو کر آئے۔ وہ نہایت منصف مزاج آدمی تھے۔ انھوں نے یہاں کے مسلمانوں (میوؤں) کو اٹھانے کے لیے بہت کام کیا۔ انہیں کی وجہ سے مدرسہ اشرف العلوم کو موجودہ قیمتی زمین رعایتی قیمت پر مل سکی جب کہ وہ محکمۂ ریلوے کے قبضے میں جا چکی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ مسٹر آروند مایا رام ڈھائی سال تک الور میں رہ کر ۱۹۸۸ میں یہاں سے چلے گئے ۔ آج کل وہ دہلی میں ہیں ۔
ایک مجلس میں ایک صاحب رعایت اور ریزرویشن کی بات کر رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں مسلمان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے کہ ان کو ریزرویشن دیا جائے اور ان سے رعایت والا معاملہ کیا جائے ۔
میں نے کہا کہ یہ معاملہ سادہ طور پر رعایت مانگنے کا نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ یہ خدا کی طرف سے مایوسی کا اظہار ہے ۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ آپ کے پیدا کرنے والے نے آپ کو کچھ نہیں دیا ، اب آپ انسانوں سے مانگ کر اپنی محرومی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں ۔
۲۱ مئی کی شام کو مدرسہ میں کہ مقامی تعلیم یافتہ اصحاب جمع ہو گئے ۔ مسلمانوں کی تعلیم کے موضوع پر گفتگو ہونے لگی ۔ میں نے کہا کہ ہندستان کے مسلمان تعلیم میں پیچھے ہو گئے ہیں۔ ہمارے رہنما اس کی ذمہ داری انگریزوں کی سازش اور ہندوؤں کے تعصب پر ڈالتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کی تمام ترذمہ داری خود مسلم رہنماؤں کے اوپر ہے۔
موجودہ زمانہ میں ملک کے اندر بے شمار اسکول اور کالج کھلے ۔ انھیں عیسائیوں اور ہندوؤں نے قائم کیا تھا۔ مگر مسلمان تحفظ کے ذہن کے تحت اس سے دور رہے۔ انھوں نے کہا کہ دوسری قوموں کی طرف سے ہمارے اوپر تہذیبی حملہ ہو رہا ہے ، ہمیں اس سے بچاؤ کی فکر کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگوں نے ان اسکولوں اور کالجوں کو مسلمانوں کے لیے "قتل گاہ "بتایا ۔ اکبر الٰہ آبادی نےان پر طنز کر تے ہوئے کہا :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یہ فکر میرے نزدیک سراسر لغو تھا۔ بعد کے تجربات بتاتے ہیں کہ انھیں اسکولوں اور کالجوں سے بے شمار لوگ ہماری دینی جماعتوں کو ملے اگر یہ ادارے واقعۃً قتل گاہ ہوتے تو یہ تمام لوگ ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے قتل ہوچکے ہوتے ، پھر وہ ہماری دینی جماعتوں کو کیسے ملتے ۔
میں نے کہا کہ اصل مسئلہ تحفظ اور بچاؤ کانہ تھا بلکہ جوابی فکری اقدام کا تھا۔ ضرورت یہ تھی کہ اسلام کی تعلیمات کو جوابی نظریہ کی حیثیت سے پیش کیا جائے اور مسلمانوں کی نئی نسلوں میں اسلام پر اتنا یقین اور حوصلہ پیدا کر دیا جائے کہ وہ جدید تہذیبی حملوں کے مقابلہ میں پُر عزم طور پرٹھہر سکے۔
میں نے کہا کہ ہمیں ملک کے تعلیمی نظام سے کٹنا نہیں تھا ، بلکہ اپنی نسلوں کو ان اداروں میں پڑھاتے ہوئے ان کی ذہنی تعمیر کا کام کرنا تھا۔ اس طرح کے کام کی ایک مثال تبلیغی جماعت ہے۔تبلیغی جماعت کا کام اگرچہ خالص روایتی انداز میں چل رہا ہے ، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہی ہے۔ وہ فکر کا جواب فکر سے دیتی ہے ۔ مادی تہذیب کے پرستاروں کا کہنا تھا کہ "چیزوں سے ہوتا ہے" اس کے جواب میں تبلیغ نے کہا کہ "چیزوں سے نہیں خدا سے ہوتا ہے " یہ گویاایک نظریہ کے جواب میں دوسرا نظریہ تھا۔ اس جوابی نظریہ نے بہت سے زیر ِتعلیم نوجوانوں کو متاثر کیا اور وہ مادی فکر سے کٹ کر دینی فکر سے جڑ گئے ۔
محمد حنیف خاں صاحب نے بتایا کہ "میوات کا سفر" نامی کتاب میں نے پڑھی ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کتاب کے بارے میں بعض میواتیوں نے اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ اس میں میوؤں کی خرابیوں کا ذکر ہے ، مگر اس میں ان کی اچھائیوں کا ذکر نہیں ۔
محمد حنیف خاں صاحب جو خود بھی ایک میوں ہیں ، انھوں نے کہا کہ میرا تاثر اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں نے یہ کتاب (میوات کا سفر) دو مہینہ پہلے پڑھی ہے۔ اس کو پڑھنے سے پہلے میں میووں کے مستقبل کے بارے میں مایوس تھا۔ اس کتاب کو پڑھ کر میری مایوسی امید میں بدل گئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں یہ تبدیلی کیسے آئی۔ انھوں نے کہا کہ اس کتاب میں بیک وقت دو باتیں ہیں۔ ایک بالفعل، دوسرے بالقوہ ۔ میووں کی بالفعل تصویر تو وہی ہے جس کا نقشہ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بات بھی اس میں بہت طاقتور انداز میں بتائی گئی ہے کہ میووں کے اندر بالقوہ صلاحیت نہایت اعلی سطح پر موجود ہے ، اگر ان کے بالقوہ کو بالفعل بنایا جا سکے تو وہ اسی طرح شاندار ترقی کر سکتے ہیں جس کی ایک مثال موجودہ جاپان میں نظر آتی ہے۔
۲۴مئی ۱۹۸۹ کو سیلی سیڑھ ، سار ِسکا اور ٹائیگر ڈین دیکھے۔ یہ سفر محمد چاولہ خاں صاحب کی معیت میں ہوا۔ یہ سب راجہ کے محل تھے ، اور اب وہ ہوٹل میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تینوں محل پہاڑوں اور قدرتی مناظر کے درمیان ہیں۔ وہاں پہونچ کر آدمی کچھ دیر کے لیے ماحول کی خوبصورتی میں گم ہو جا تا ہے ۔
تاہم یہ تفریح بے حد وقتی ہے ۔ ہم ایک ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ چاروں طرف مسحور کن قدرتی مناظر پھیلے ہوئے تھے۔ خود ہوٹل کا تعمیری حسن بھی غیر معمولی تھا۔ ہوٹل کا منیجر ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے بات کرتے ہوئے پوچھا کہ موجودہ جاب آپ کے لیے کیسا ہے۔ انھوں نے کیا کہ سخت بورنگ ۔ میں تو اس کو ایک پنشمنٹ سمجھتا ہوں۔ کوئی آدمی جب یہاں آتا ہے تو ایک دو دن کے لیے تو اس کو یہاں کا ماحول بہت اچھا لگتا ہے ۔ اس کے بعد وہ بور ہوکر بھاگ جانا چاہتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نیاپن کا نام زندگی ہے ، اور یکسانیت کا نام موت، انسان کسی جامد چیز سے مستقل طور پر محظوظ نہیں ہو سکتا۔ مستقل طور پر محظوظ ہونے کے لیے ایک ایسی چیز درکارہے جو ارتقا پذیر ہو۔ ایسا مقام صرف جنت ہو سکتا ہے۔ دنیا میں اس قسم کی لذت گاہ کا حصول ممکن نہیں ۔
۲۱ مئی کو مفتی جمال الدین صاحب کی صاحبزادی کے نکاح کی تقریب میں شرکت کی ۔ الور سے تقریباً ۵۰ کیلومیٹر کے فاصلہ پر کیما سا نامی گاؤں کا سفر ہوا ۔ سفر کا نصف حصہ الور - دہلی روڈ پر طے ہوا۔ سڑک دونوں طرف سے اونچے درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی ۔ جنتين عن يمين وشمال کا منظر تھا۔ یہ پورا سفر سرسبز چھتری کے نیچے ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب و غریب احسان یاد آیا۔ اس دنیا میں ہر کثیف چیز اوپر سے نیچے کی طرف جاتی ہے۔ درخت واحد استثنا ء ہے جو نیچے سے اوپر کی طرف جاتا ہے ۔ درخت کی یہی خصوصیت ہے جس کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا کہ وہ ہمارے راستوں کے اوپر سرسبز چھتری بن کر سایہ فگن ہو سکے ۔ درخت میں اگر یہ استثنائی صفت نہ ہوئی تو زمین پرسرسبز میدان تو ہوتے مگر سر سبز سائے ہم کو نصیب نہ ہوتے ۔
صبح ۸ بجے جدید طرز کی ماروتی وین قدیم طرز کے کیما سا میں داخل ہوئی ۔ دل نے کہا کاش یہ واقعہ میوؤں کی قدیم زندگی میں جدید امکانات کے داخلہ کی علامت بن جائے ۔ ۲۰ سال پہلے راقم الحروف نے "میوات کے سفر" میں میوات کی جو تصویر دیکھی وہ تقریباً مکمل طور پر روایتی تھی ۔ آج اس قدامت میں جدت کی کچھ نشانیاں نظر آنے لگی ہیں ۔ مگر ابھی وہ اتنی کم ہیں کہ وہ صرف اس زمرہ میں جاتی ہیں جس کے متعلق غالب نے کہا تھا :
دل کے خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
گاؤں کی مسجد میں نکاح کی سادہ تقریب ہوئی ۔ قاضی صاحب نے رجسٹر نکاح بھرتے ہوئے پوچھاکہ مہر کتنی رکھی جائے۔ نوشہ (محمد الیاس ۲۲ سال) کے والد نے کہا 32½ تولہ چاندی رکھ لو۔ معلوم ہوا کہ میووں میں سیکڑوں سال سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ساڑھے ۳۲ تولہ چاندی مہر نکاح مقرر کرتےہیں۔ اس قسم کی روایت کسی گروہ کے لیے بہت قیمتی ہے۔
مجھے یاد آیا کہ چند روز پہلے نئی دہلی میں ہمارے دفتر کے سامنے والے پارک میں ایک شادی کی تقریب تھی۔ پارک میں بہت بڑا شامیانہ لگایا گیا۔ روشنیوں کی کثرت سے نگاہ ٹھرانامشکل تھاساری رات لاؤڈ اسپیکر سے گانے کی آواز یں آتی رہیں۔ رات بھر رسوم ادا کرنے کے بعد صبح ہوئی توشادی والے اور شامیانہ والے میں تکرار ہو گئی۔ شامیانہ والا ۵۰ ہزار روپیہ مانگ رہا تھا۔ شادی والےکا کہنا تھا کہ ۴۵ ہزار میں بات طے ہوئی تھی ۔
قاضی صاحب "جو انسان سے نہ چاہے وہ خدا سے پاتا ہے" سب سے بڑی دولت استغنا ہے۔ کیماسا کی آبادی تقریباً ایک ہزار ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے یہاں اور علاقہ کے دوسرے مقامات پر زیادہ تر میو مسلمان آباد تھے۔ وہی یہاں غالب حیثیت رکھتے تھے ۔ ۱۹۴۷ کے انقلاب کے بعد بیشتر میو یہاں سے چلے گئے۔ زمینیں تقریباً سب کی سب شرر نارتھیوں کو دے دی گئیں۔ تھوڑے سےمیو جو یہاں باقی تھے ان کی حیثیت زرعی مزدور کی ہو گئی۔ ان میوؤں کے لیے زندگی کی صورت صرف یہ تھی کہ وہ شرر نارتھیوں کی زمینوں پر محنت کر کے اپنی معاش حاصل کریں۔
مگر شرر نار تھی یہاں جم نہ سکے ۔ ان کے اندر شہر جانے کا ذہن ابھرا۔ وہ اپنی زمینوں کو بیچ کر شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے ۔ اب میووں کی باری تھی ۔ انھوں نے ان زمینوں کو شررنارتھیوں سےخریدنا شروع کر دیا ۔ اس طرح یہاں کی زمینیں اب دوبارہ میووں کے قبضہ میں آچکی ہیں۔
دس سال پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو میوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا تھا کہ ہماری زمینیں شرر نارتھیوں کے قبضہ میں چلی گئیں ۔ مگر اب دس سال بعد دوسرا سفرہوا تاریخ بدل چکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے آنے والے وقت تک انتظار نہیں کر پاتے۔
لوگ اگر کل کے امید افزا حالات کو جانیں تو وہ کبھی آج کے مایوس کن حالات پر دل شکستہ نہ ہوں ۔
یہاں کی مسجد دوبارہ زیادہ بہتر اور وسیع انداز میں تعمیر کی جارہی ہے ۔ ۲۵ مئی کو صبح روانگی سے پہلے میں مسجد کے اندرونی حصہ میں کھڑا ہوا اس کی تعمیرات کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ یہ قدیم مسجد پہلی بار ۱۹۴۷ میں مکمل طور پر ڈھا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اس کی نئی تعمیر ہوئی۔ یہ نئی تعمیر بھی دوبارہ ۱۹۸۸ میں پوری کی پوری ڈھادی گئی۔
میں نے سوچا کہ" ڈھانے" کے اعتبار سے ۱۹۴۷ کا واقعہ اور ۱۹۸۸ کا واقعہ، دونوں بظاہر یکساں ہیں ۔ مگر نوعیت کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلا واقعہ دشمنوں نے کیا تھا، دوسرا واقعہ دوستوں نے کیا ہے۔ پہلا انہدام مسجد کو ختم کرنے کے لیے تھا، دوسرا انہدام مسجد کو از سر ِنو زیادہ بہتر بنانے کے لیے ۔ اس دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دو چیزوں کی شکل بظاہر یکساں ہوتی ہے ۔ مگر دونوں کی حقیقت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہ جانیں ، وہ کبھی اس دنیا میں کامیاب روش اختیار نہ کر سکیں گے ۔
جس مدرسہ میں میرا قیام تھا، اس سے اسٹیشن قریب ہے ۔ یہ سفر میں نے بالقصد سائیکل رکشہ کے ذریعہ کیا ۔ اسٹیشن پہونچ کر رکشہ والے سے کرایہ پوچھا تو اس نے دور وپیہ بتایا۔ میں نے فوراً اس کو دو روپیہ دیا اور اسٹیشن میں داخل ہو گیا۔ یہاں مدرسہ کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے رکشہ والے کو کرایہ کی رقم اد کردی تھی۔ اس قصہ کو سن کر مدرسہ کے ایک استاد حافظ محمد اسماعیل صاحب (۳۵ سال) بولے : دو روپیہ لے جانے سو کون سا اس کا رکشہ چلاناچھوٹ جائے گا ۔ چلائے گا تو وہ رکشہ ہی ۔
ہماری ٹرین (سپر فاسٹ اکسپریس)الور اسٹیشن پر پہونچی تو وہ پندرہ منٹ لیٹ تھی۔ مگر دہلی پہنچتے پہنچتے وہ پورے ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی۔ اس کی وجہ ایک مسافر نے اپنے لفظوں میں اس طرح بتائی : لیٹ ہونے کے بعد پٹتی جاتی ہے گاڑی ۔ جو ٹرین ایک بارلیٹ ہو جائے تو اس کو مزید لیٹ ہونا پڑتا ہے ۔ کیوں کہ ریلوے کا اصول یہ ہے کہ جوٹرین اپنے صحیح وقت پر چل رہی ہو اس کو پہلے راستہ دیا جائے۔ اور جو ٹرین لیٹ ہو گئی ہو اس کو روک دیا جائے۔ چنانچہ آگے سے آنے والی ٹرین کو راستہ دینے کی خاطر ہماری ٹرین بار بار در میانی اسٹیشنوں پر رو کی جاتی رہی ۔ اس طرح ایسا ہوا کہ جو گاڑی ابتداء میں پندرہ منٹ لیٹ تھی وہ آخر میں ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی۔
یہی وسیع تر زندگی کا معاملہ ہے ۔ جو زندگی کی دوڑ میں ایک بار پیچھے ہو جائے وہ مزید پیچھے ہوتا چلا جائے گا ، خواہ اس نے اپنی سواری کا نام"سپر فاسٹ" کیوں نہ رکھ لیا ہو۔
ٹرین مجھے لیے ہوئے الور سے دہلی کی طرف جارہی تھی ۔ ذہن میں مختلف قسم کے خیالات گردش کر رہے تھے ۔ میرے سامنے کی سیٹ پر ایک عورت اپنی چھوٹی بچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اچانک میں نے سنا کہ بچی اپنی ماں سے کہہ رہی ہے ممی نانی کا گھر کب آئے گا۔
میں نے سوچا کہ بے خبر بچی صرف اپنی نانی کو جانتی ہے ۔ وہ سمجھ رہی ہے کہ وہ نانی کے گھرجارہی ہے۔ حالانکہ بچی اور دوسرے تمام مسافر حقیقت " خدا کے گھر" کی طرف جارہے ہیں ۔ دہلی ہمارا در میانی اسٹیشن ہے نہ کہ آخری اسٹیشن ۔
یہ سوچتے ہوئے ایسا محسوس ہوا گویا کہ میں ٹرین پر نہیں ہوں ، بلکہ کسی خدائی سواری پر بیٹھا ہوا ہوں ۔ خدا کے فرشتے مجھے دنیا سے آخرت کی طرف لے جارہے ہیں۔ ۲۵ مئی کی صبح کو جب ٹرین دہلی اسٹیشن پر رکی تو چھوٹی بچی کے لیے" وہ نانی کا گھر " تھا جس کی نانی اس کا استقبال کرنے کے لیے پہلے سے اسٹیشن پر موجود تھی۔ مگر میرے لیے وہ خدا کا گھر تھا جہاں خدا کے فرشتے ہر آنے والے کواپنے قبضہ میں لے رہے تھے ۔
آج کی دنیا میں ہر آدمی مذکورہ چھوٹی بچی کی مانند ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی نانی کے گھر جا رہا ہے۔ حالاں کہ وہ خدا کے گھر کی طرف جا رہا ہے۔ وہ استقبال کے اسٹیشن پر نہیں بلکہ احتساب کے اسٹیشن پر اترنے والا ہے۔ کتنا زیادہ فرق ہے لوگوں کی سوچ میں اور اصل حقیقتِ واقعہ میں ۔