ایک آیت

فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْاۭاِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌوَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ  ( ہود :112-113)

پس تم جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے اور وہ بھی جس نے تمہارے ساتھ تو بہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو، بے شک اللہ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔ اور ان کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑلے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں۔پھر تم کہیں مدد نہ پاؤ گے ۔

اس آیت میں جس استقامت کا حکم دیا گیا ہے وہ بے آمیز دعوت پر استقامت ہے۔ اور عدم ِرکون( نہ جھکنے) سے مراد یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہرگز کوئی خارجی اثر قبول نہ کرو ۔ ہر حال میں اسی دعوتِ توحید پر قائم رہو جس کی تمہیں تلقین کی گئی ہے۔

انسانی سماج میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ غیر خدا کی پرستش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کبھی خداکو چھوڑ کر اور کبھی خود خدا کے نام پر۔ اس لیے جب بھی سچی خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو غیر خدائی بنیاد پر اپنی زندگی کا ڈھانچہ کھڑا کیے ہوئے ہوں ۔

 یہاں داعی بیک وقت دو سخت ترین آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ایک یہ کہ مدعو کی اشتعال انگیزی کے باوجود وہ مکمل طور پر صبر کی روش پر قائم رہے ، وہ کسی حال میں صبر و اعراض کی راہ سے نہ ہٹے ۔ دوسرے یہ کہ مدعو کے لیے قابلِ قبول بنانے کی خاطر وہ دعوت میں کسی بھی قسم کی لچک نہ دکھائے۔ گویا ایک طرف اصل نکتۂ دعوت پر جماؤ، خواہ اس کے نتیجے میں مدعو کا

ردِّ عمل شدید سے شدید تر کیوں نہ ہو جائے۔ اور دوسری طرف اپنی داعیانہ تصویر کو برقرار رکھنے کی خاطرمدعو کے ہر ظلم کو یک طرفہ طور پر برداشت کرنا ۔

یہاں جس عدم ِرکون کا ذکر ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی قومی شناخت کو قائم رکھنے پر پوری طرح جمے رہو۔ ایسا ہر گز مت کرو کہ ٹوپی اور شیروانی اتار کر ہیٹ اور پتلون  پہننے لگو۔ اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے خلاف اپنی تحریک میں کسی قسم کی مصالحت نہ دکھاؤ ، ان کو تخت سے بے دخل کرنے کے سوا کسی اور بات پر راضی نہ ہو ۔ آیت کی ایسی ہر تشریح بالکل لغو ہے۔ قومی عدم رکون یا سیاسی عدم رکون کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ۔

یہ آیت سراسر آدابِ دعوت سے متعلق ہے ۔ یہاں عدم ِرکون سے مراد پیغام توحید کے بارے   میں عدم رکون ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت توحید کے خالص پن (Purity) کو پوری طرح باقی رکھو۔ اس میں کسی بھی قسم کی آمیزش نہ کرو۔ قومی حقوق کا مطالبہ ، مادی زیادتیوں کے خلاف احتجاج۔ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اسلوب دعوت کو بدلنا، عوام کے درمیان مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ان کی دل پسند بولی بولنا ۔ دعوت کے اصل نکتہ کے ساتھ ایسی باتوں کو شامل کرنا جس سے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی ہو ۔ یہ سب رکون میں شامل ہے۔ اور ایسی ہر چیز سے کامل پر ہیز داعی کےلیے انتہائی طور پر ضروری ہے ۔

 دعوت کا کام سراسر ایک مثبت کام ہے ۔ مگر اس کی صحیح انجام دہی کے لیے دو منفی شرطیں ہیں۔ ایک عدم طغیان ، اور دوسرے عدم رکون۔ امام حسن بصری نے اس بات کو اس طرح بیان کیا کہ اللہ نے دین کو دو    "لا" (نہیں) کے درمیان رکھا ہے۔ تجاوز نہ کرنا ، اور جھکاؤ نہ دکھانا۔ (عَنِ الْحَسَنِ: ‌جَعَلَ ‌اللهُ ‌الدِّينَ ‌بَيْنَ ‌لَاءَيْنِ: - وَلَا تَطْغَوْا - وَلَا تَرْكَنُوا – (تفسير النسفى(

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی مکی زندگی میں یہ دونوں چیزیں بہت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلا ً مکہ میں ۱۳ سال تک مدعو قوم آپ اور آپ کے اصحاب کے اوپر ہر قسم کا ظلم کرتی رہی مگر آپ نے ان کے خلاف کسی بھی قسم کاردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ ہمیشہ آپ یک طرفہ صبر کی روش پر قائم رہے۔ ان کی زیادتیوں کے باوجود آپ نے نہ کبھی احتجاج کیا اور نہ حقوق طلبی کی مہم چلائی۔

اسی طرح مکہ کے سرداروں نے آپ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہم آپ کی دشمنی چھوڑ دیں گے، آپ ہماری صرف ایک شرط کو پورا کر دیں۔ وہ یہ کہ آپ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں ۔ یہ تمام بُت دراصل ان کے فوت شدہ بزرگ تھے ۔ ان بزرگوں کی تصویر بنا کر وہ ان کو پوجتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیدوں کی زد ان پر پڑتی تھی جس سے ان کی عقیدتمندیوں کو سخت ٹھیس لگتی تھی۔ انھوں نے چاہا کہ ان کی غیر خدائی عقیدتمندیوں پر ضرب نہ لگے تو وہ آپ کو اور آپ کے مشن کو گوارا کر لیں گے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔

یہ دونوں چیزیں انسان کے لیے بے حد سخت ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے زیادہ سخت چیزاور کوئی اس دنیا میں نہیں ۔

 مذکورہ آیت میں جو حکم دیا گیا ہے ، اس کی اسی سنگین نوعیت کی بنا پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت شدید ثابت ہوئی تھی۔ البغوی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی آیت نہیں اتری جو آپ پر اس آیت سے زیادہ شدید ہو۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ سورہ ہود نے مجھ کو بوڑھا کر دیا (مَا نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم آيَةٌ هِيَ ‌أَشَدُّ ‌عَلَيْهِ ‌مِنْ ‌هَذِهِ الْآيَةِ، وَلِذَلِكَ قَالَ: "شَيَّبَتْنِي هُودٌ)( تفسير البغوي،۔1167)

قومی رجحان

ہر قوم کا ایک قومی رجحان ہوتا ہے۔ اس رجحان کا ساتھ دینے سے قوم کے اندر قیادت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اور جو شخص اس رجحان کے خلاف بولے ، وہ قوم کے اندر بے جگہ ہوجاتا ہے۔ اس کو قوم کے اندر نہ مقبولیت حاصل ہوتی اور نہ قیادت۔

 اس معاملہ کو وقت کی ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ہندستان اور پاکستان کےدرمیان کشمیر کا مسئلہ ہے۔ ہندستان کا قومی رجحان یہ ہے کہ کشمیر ایک حل شدہ معاملہ ہے ۔ اس کے برعکس پاکستان کا قومی رجحان یہ ہے کہ کشمیر ایک غیر حل شدہ اور متنازعہ معاملہ ہے۔ چنانچہ دونوں ملک کے لیڈر جب اس مسئلہ پر بولتے ہیں تو وہ اپنے یہاں کے قومی رجحان کی پوری رعایت کرتےہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کے خلاف بولتے ہی وہ ختم ہو جائیں گے۔

اس کی مثال دونوں ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ مثلاً ہندستان میں آنجہانی راج گوپال اچاری نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی طے ہونا باقی ہے ، اس کے بعد وہ ملک کے اندر بالکل غیر مقبول ہو گئے۔ اسی طرح پاکستان میں خان عبد الغفار خان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ آخری طور پر طے ہو چکا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پاکستان میں غیر مقبول ہو کر رہ گئے –––––  اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ چیز کیاہے جس کو قرآن میں رکون (ھود  ۱۱۳) کہا گیا ہے ۔

رکون (جھکاؤ) اگر کسی گروہ کی طرف ہو تو اس سے آدمی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن جب آدمی گروہی تقاضوں کو نظر اندازکر کے خالص حق کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے تووہ لوگوں کے درمیان اکیلا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ رکون کا راستہ سب سے زیادہ آسان راستہ ہے۔ اور عدم رکون کا راستہ سب سے زیادہ مشکل راستہ۔

 قوم کا رجحان خواہش پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس داعی اصول کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ اب اگر داعی اصول کی بات کہے تو وہ قوم سے کٹ جائے گا، اور اگر وہ قومی رجحان کے مطابق بولے تو حق کی نمائندگی نہیں ہوتی ۔ یہ بے حد نازک امتحان ہے۔ مگر داعی کو لاز ماً  حق بات کہنا چاہیے ۔ اگر اس نے "قومی آگ "سے بچنے کی خاطر حق کا اعلان نہیں کیا تو اس کو "خدائی آگ " پکڑلے گی ، اوریقینا ً خدا کی آگ ، قوم کی آگ سے زیادہ سخت ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom