کتنا فرق
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ میں نفاق نے سر اٹھایا اور عرب اور عجم میں ارتداد پھیل گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ وہ شخص دنیا سے چلا گیا جس کی وجہ سے عرب کو خدا کی مدد ملتی تھی ۔ اس وقت خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور کہا کہ ان عربوں نے اپنی بکریوں اور اپنے اونٹوں کو روک دیا ہے ۔ اور اپنے دین سے پھر گئے ہیں۔ اور عجم کے لوگ نہاوند میں جمع ہیں تا کہ ہم سے جنگ کریں۔ ان لوگوں کا گمان ہے کہ وہ شخص جس کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی تھی وہ وفات پاگیا۔ اے لوگو اس معاملے میں مجھےمشورہ دو۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی تقریر کے بعد لوگ سرجھکا کر خاموش ہو گئے اور دیر تک خاموش رہے ۔ آخر حضرت عمر بن الخطاب گویا ہوئے اور انھوں نے کہا (فَأَطرَقُوا طَوِيلا، ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ فَقَالَ)حياة الصحابہ ، الجزء الاول، صفحہ ۴۳۲(
حضرت ابو بکر صدیق کے سوال کے بعد لوگ کیوں دیر تک خاموش رہے ۔ اس کی وجہ ان کی سنجیدگی اور ان کا تقوی ٰتھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو پہلے سوچتے تھے اور اس کے بعد بولتے تھے۔ وہ ہر قول اور ہر فعل سے پہلے اللہ سے ہدایت اور رہنمائی کی دعا کرتے تھے ۔ جب خلیفۂ اول نے مذکورہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا تو اپنے مزاج کے مطابق سب کے سب سوچ میں غرق ہو گئے ۔ ہر ایک دل ہی دل میں اللہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ہر ایک پر خاموشی طاری کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ خاموشی ایک عظیم گفتگوتھی ، ان کا یہ سر جھکانا سب سے بڑا اقدام تھا۔چنانچہ وہ جب بولے تو ان کا بول تمام بولوں پر بھاری ہوگیا ۔ جب وہ اٹھے تو ان کا اٹھنا تمام دشمنوں کو پست کرنے کے ہم معنی بن گیا ۔ کیوں کہ ان کا بول خدا کی رہنمائی کے تحت تھا ، ان کے اقدام میں خدا کی مدد ان کے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔
اب دیکھیے کہ اس معاملے میں موجودہ مسلمانوں ، خاص طور پر ان کے رہنماؤں کا کیا حال ہے۔ اس کا منظر دیکھنا ہو تو مسلمانوں کی کسی ایسی مجلس میں شریک ہو کر دیکھ لیجیے، جو اس نوعیت کےہنگامی مسئلے پر اکٹھا ہوئی ہو ۔ مثلاً فلسطین ، فرقہ وارانہ فساد ، بابری مسجد ، سلمان رشدی، جیسے مسائل۔ آپ دیکھیں گے کہ موضوع کا ذکر چھڑتے ہی ہر آدمی لسانی جہاد کا شہنشاہ بن گیا ہے۔ ہر آدمی پُر جوش طور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے بولے ، اور آتشیں الفاظ کی پوری ڈکشنری کو بیک وقت اپنی زبان سے دہرا ڈالے ۔
مگر یہ لفظی جوش دکھانے والے عمل کے وقت پھسڈی ثابت ہوتے ہیں۔ مارچ کے موضوع پر تقریروں کا دریا بہانے والے مارچ کی تاریخ آنے کے بعد خاموش ہو کر گھر میں بیٹھ رہتے ہیں۔ بول میں آگے رہنے والے عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بحث میں سب سے پہلے کھڑے ہونے والے اس وقت سر جھکا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں جب کہ عملی اقدام کا وقت سر پر آگیا ہو۔
جو برتن جتنا زیادہ خالی ہو ، وہ اتنا ہی زیادہ آواز دیتا ہے۔ اسی طرح جو آدمی جتنا زیادہ بے عمل ہو اتنا ہی زیادہ وہ پُر شور الفاظ بولتا ہے۔ بولنے والے کرتے نہیں ، اور کرنے والے بولتے نہیں۔ اور حقیقت کی دنیا میں کرنے کی قیمت ہے نہ کہ بڑے بڑے الفاظ ہوا میں بکھیرنے کی۔