تبارک اللہ
تبارک کا لفظی مطلب ہے— بہت زیادہ برکت والا۔ یہ لفظ قرآن میں 9 بار آیا ہے۔ یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے (وہی کلمۃ لم تستعمل إلاّ للہ وحدہ)۔ تبارک کا لفظ ’برکۃ‘ سے مشتق ہے۔ یہ تفاعل کے وزن پر برکۃ کا مبالغہ ہے۔ برکۃ کے معنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے اِن الفاظ میں بیان کیے ہیں: الکثرۃ فی کلّ خیر (لسان العرب 10/396) یعنی ہر قسم کے خیر کی کثرت۔
تبارک کا مطلب ہے— ہر پہلو سے اور ہر چیز میں کمالِ خیر کا حامل ہونا۔ مثلاً قرآن میں ہے: فتبارک اللہ أحسن الخالقین (المؤمنون:14) اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق ہر پہلو سے کامل ہے، اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل (final model) پر ہے۔ اِس دنیا کا تخلیقی منصوبہ اتنا زیادہ اعلیٰ ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، اِس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں، کسی پہلو سے اس میں ادنیٰ درجے میں کوئی نقص (defect) موجود نہیں۔
انسان کو جو جسم دیاگیا ہے، وہ ہر اعتبار سے ایک بہترین جسم ہے۔ اِس دنیا میں جو لائف سپورٹ سسٹم پایا جاتا ہے، وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو آخری حد تک پورا کرنے والا ہے۔ سولر سسٹم اور کہکشائوں کا نظام اپنی ساری وسعتوں کے باوجود پوری طرح خالی از نقص (zero-defect) صفات کا حامل ہے۔ نباتات، جمادات اور حیوانات کی وسیع دنیا اپنے تمام تنوعات کے باوجود ہر پہلو سے کمالِ خیر کے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اللہ اپنی ذات میں خیرِ کامل ہے۔ اُسی سے خیر وبرکت کاتمام فیضان لوگوں تک پہنچتا ہے۔ یہ سب انسان کے لیے ایک عظیم رحمت (blessing) ہے۔ وہ اِس لیے ہے کہ انسان ان کو دیکھ کر خدا کی بے پایاں عظمت وقدرت کا تعارف حاصل کرے۔ وہ خدا سے سب سے زیادہ محبت کرنے لگے، اور خدا کے بارے میں اس کے اندر خشیت کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوں۔ یہی ایمان ہے، اور خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا اِسی ایمان کی کائناتی تربیت گاہ۔