پیغمبرانہ کردار
عام لوگ انسان کو دشمن اور دوست میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن داعی کے ذہن میں یہ تقسیم نہیں ہوتی۔ داعی کی نظر میں ہر انسان صرف انسان ہوتاہے، خواہ وہ بہ ظاہر اپنا ہو یا غیر۔ داعی کے رویّے کو ایک لفظ میں، انسان دوست (human-friendly) رویہ کہہ سکتے ہیں۔
عام انسان کا مزاج یہ ہوتاہے کہ— دشمن سے بائیکاٹ کرو، دشمن کو بدنام کرو، دشمن سے انتقام لو، دشمن کو ذلیل کرنے کی کوشش کرو، دشمن کے لیے بد دعائیں کرو، دشمن کی کردار کشی کرو، دشمن کو سبق سکھاؤ، وغیرہ۔ یہ طریقہ داعیانہ اسپرٹ کے خلاف ہے۔ جولوگ اس قسم کا مزاج رکھتے ہوں، وہ کبھی خدا کے دین کے داعی نہیں بن سکتے۔اس کے برعکس، داعی کا مزاج مکمل طورپر مثبت مزاج ہوتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر ایک اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بہ ظاہر کوئی شخص دشمنی کرے تب بھی داعی کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ داعی کا ذہن یہ ہوتاہے کہ— دشمن کے ساتھ ناصحانہ روش اختیار کرو، اچھے سلوک کے ذریعے دشمن کو اپنا دوست بناؤ، اپنی تنہائیوں میں دشمن کے لیے دعائیں کرو، دشمن سے محبت کرو، دشمن کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہو، دشمن کو اپنے جیسا ایک انسان سمجھو، ہر حال میں دشمن کے خیر خواہ بنے رہو، دشمن کی ہلاکت کا متمنی ہونے کے بجائے اُس کو خدا کی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنانے کی کوشش کرو۔ اِس معاملے میں داعیانہ کردار کیا ہے، اس کو ایک شاعر نے پیغمبر کے حوالے سے بجا طور پر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
راہ میں جس نے کانٹے بچھائے، گالی دی، پتھر برسائے
اُس پر چھڑکی پیار کی شبنم، صلی اللہ علیہ وسلم
دعوت کے عمل کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص داعی کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے۔ داعیانہ کردار کے بغیر داعی بننے کی کوشش کرنا، قرآن کے الفاظ میں، بن کئے پر کریڈٹ لینے کے ہم معنیٰ ہے (یحبّون أن یُحمدوا بما لم یفعلوا)۔ خدا کی اِس دنیا میں ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ خدا کے یہاں حقیقی عمل پر کریڈٹ ملتاہے، نہ کہ فرضی دعوے پر۔