اہلِ ایمان کی مدد
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اِس دنیا میں اہلِ ایمان کی ضرور مدد کرتاہے۔ اِس سلسلے میں ایک آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً (النساء: 141) یعنی اللہ ہر گز اہلِ کفر کو اہلِ ایمان پر کوئی راہ دینے والا نہیں۔
اِس آیت میں ’’کافر‘‘ سے مراد کوئی کافر قوم نہیں ہے۔اِسی طرح سے مومن سے مراد کوئی مومن قوم نہیں ہے۔ اِس آیت میں کافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا کفرقانونِ الٰہی کے مطابق متحقَّق (established) ہوچکاہو۔ اِسی طرح مومن سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ایمان قانونِ الٰہی کے مطابق متحقق ہوچکا ہو۔ جن گروہوں کے اوپر یہ تحقُّق نہ ہوا ہو، وہ اِس آیت کا مصداق نہیں بن سکتے۔کسی گروہ کے لیے کفر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس کو خدا کا پیغام تمام ضروری شرطوں کے ساتھ پہنچایا جائے، یہاں تک کہ اُن کے لیے خدا کا دین ایک معلوم واقعہ بن جائے۔ اِسی طرح اِس آیت میں مومن گروہ سے مراد وہ گروہ ہے جو صبر کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان رہے، جو ملک اور مال جیسی چیزوں کے لیے لوگوں سے نزاع نہ کرے، دوسرے گروہوں سے ان کا ٹکراؤ کسی بھی دنیوی مقصد کے لیے پیش نہ آئے، وغیرہ۔
یہ مدد اہلِ ایمان کے لیے صرف اُس وقت آتی ہے جب کہ اہلِ ایمان یک طرفہ طورپر مظلوم ہوں، اور اہلِ باطل یک طرفہ طورپر ظالم۔ جب بھی ایسا ہو کہ کچھ لوگ اپنے بارے میں مومن اورمسلم ہونے کا دعویٰ کریں، اِس کے باوجود وہ اہلِ کفر سے مغلوب ہوجائیں، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرنے والے لوگ اپنے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ خدا کا وعدہ بلا شبہہ سچا ہے، لیکن وہ صرف اُن اہلِ ایمان کے لیے مقدر ہے جو خود بھی سچے مومن ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ جب بھی ایسا ہو کہ اہلِ کفر کے مقابلے میں اہلِ ایمان مغلوبیت کا شکار ہورہے ہوں تو اُس وقت اہلِ ایمان کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ایسے موقع پر اہلِ کفر کے خلاف شکایتوں کا طوفان کھڑا کرنا صرف اپنے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ اُس کو گھٹانے والا۔