دعوت کا تقاضا

دعوت اہلِ ایمان کی ایک لازمی ذمے داری ہے۔ دعوت سے مراد غیر مسلم افراد تک دینِ حق کا پیغام پہنچانا ہے۔ اسلام کا اِشاعتی کام مسلمانوں  کے درمیان بھی کرناہے اور غیر مسلموں  کے درمیان بھی۔ مسلمانوں کے درمیان جو کام کیا جائے، اس کا نام اصلاح ہے، اور غیر مسلموں  کے درمیان جو کام کیا جائے، اس کا نام دعوت الی اللہ۔

جو لوگ مسلمانوں  کی اصلاح کا کام کریں، اُن کو مسجدوں  میں اور مدرسوں  میں  اور مسلم اجتماعات میں  افراد مل جاتے ہیں۔ وہ وہاں  اسلام کا اشاعتی کام کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ غیر مسلموں  کے درمیان اسلام کا اشاعتی کام کرنا چاہتے ہیں، وہ کیا کریں۔ اُن کے جو مخاطبین ہیں، وہ ان کو مسجد میں  یا مدرسے میں  یا مسلم تقریبات میں نہیں  مل سکتے۔ غیر مسلم افراد تو صرف اپنے مواقعِ اجتماع میں  ملیں گے، نہ کہ مسلمانوں  کے مواقعِ اجتماع میں۔

دعوت کے اِس تقاضے کا واحد حل یہ ہے کہ داعی، غیر مسلموں  کے اپنے اجتماعات میں  جائے اور وہاں  وہ ممکن دائرے میں اپنا دعوتی کام کرے۔ لیکن یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ غیر مسلم اپنے اجتماعات ہماری شرطوں  پر نہیں  کرسکتے۔ یہ یقینی ہے کہ غیر مسلم اپنے جو اجتماعات کریں  گے، وہ خود اپنی روایت اور اپنے کلچر کے مطابق کریں  گے۔ ایسی حالت میں  غیر مسلموں  کے مواقعِ اجتماعات کو دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اسلام کے اُس اصول کو اختیار کیا جائے جس کو قرآن میں  اعراض (avoidance) کہاگیا ہے (الأعراف:199) یعنی ایسے مواقع پر اکھٹا ہونے والے لوگوں  سے ملنا اور اُن کو اسلامی لٹریچر دینا، اور اِن مواقع پر جو چیزیں  غیر مسلموں  کے اپنے کلچر سے تعلق رکھتی ہیں، اُن سے اعراض یا صرف ِ نظر کامعاملہ کرنا۔ صبر و اعراض دعوت کا لازمی تقاضا ہے، صبر واعراض کے بغیر دعوت کے کام کو موثر طورپر انجام دینا ممکن نہیں— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اِس حکمتِ دعوت کا عملی نمونہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom