جنت کی دنیا
ایک صاحب نے کہا کہ جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جنتی کردار پایا جاتا ہو۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ ساری تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جو جنتی کردار کے حامل ہوں۔ ایسی حالت میں جنت تو صرف ایک سونی جگہ ہوگی، نہ کہ رونقوں سے بھری ہوئی جگہ۔
میں نے کہا کہ جنت کی سب سے بڑی رونق خود خداوند ِ ذو الجلال کی ذات ہے۔ خدا کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ آسمان اور زمین کا نور ہے (النور:35)۔ یہ نور جنت میں بدرجۂ کمال موجود ہوگا۔ پوری جنت خدا کے نور سے بھری ہوئی ہوگی۔ جنت کے ہر عورت اور مرد کو خدا کی موجودگی کا مستقل احساس ہوگا۔ جنت میں ہم اِس قابل ہوں گے کہ خدا کی موجودگی کو مسلسل طورپر محسوس کرسکیں:
We will be able to feel continuously the presence of God.
اِس کے علاوہ، جنت میں خدا کے فرشتے بے شمار تعداد میں موجود ہوں گے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں آنے والے پیغمبر جنت کے ممتاز افراد کی حیثیت سے وہاں موجود ہوں گے۔ اِس کے علاوہ، پوری تاریخ میں پیدا ہونے والی تمام صالح عورتیں اور تمام صالح مرد وہاں اکھٹا کیے جائیں گے۔ اِس طرح وہ بے شمار بچے وہاں بسائے جائیں گے جو معصومیت کی عمر میں مر گئے۔ یہ بچے جنت کی خصوصی رونق ہوں گے۔ غالباً اِنھیں کے بارے میں قرآن میں آیا ہے: ویطوف علیہم ولدان مخلّدون، إذا رأیتہم حسبتہم لؤلؤاً منثوراً (الدھر: 19) یعنی ان کے پاس پھر رہے ہوں گے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے ہی رہیں گے۔ تم اُنھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دئے گئے ہیں۔
جس جنت میں اتنی زیادہ رونقیں اور اتنی زیادہ پر کیف سرگرمیاں موجود ہوں، وہ جنت ایک سونیجنت کیسے ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک انتہائی پررونق جگہ ہوگی۔ چناں چہ حدیث میں جنت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: فیہا ما لا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علیٰ قلب بشر (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ)۔