خوف ِخدا کی پہچان
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو اِس طرح دریافت کرے کہ وہ اُس سے ڈرنے والا بن جائے۔ خدا کا خوف بلا شبہہ کسی کے دین دار ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ خوفِ خدا کی پہچان کیا ہے، اس کو کتاب اللہ کے مطالعے سے جانا جاسکتا ہے۔ اِس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: ولا یجرمنّکم شنئٰان قوم علیٰ ألا تعدلوا، اعدلوا ہو أقرب للتقویٰ (المائدۃ: 8) یعنی کسی گروہ کی دشمنی تم کو اِس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔
اخلاقی اعتبار سے انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں— ایک، معتدل حالت۔ اور دوسری، غیر معتدل حالت۔ معتدل حالت میں ہر انسان با اخلاق ہی ہوتا ہے۔ معتدل حالت کسی آدمی کے صاحبِ تقویٰ ہونے کی پہچان نہیں ہوسکتی۔ صاحبِ تقویٰ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی غیر معتدل حالت میں کس قسم کی روش کا اظہار کرتاہے۔ایک صورت وہ ہے جب کہ آدمی کے ساتھ آپ کے دوستانہ تعلقات ہوں۔ ایسے حالات آپ کے تقویٰ کا امتحان نہیں ہوتے۔ تقویٰ کے امتحان کا وقت وہ ہے جب کہ آدمی کے ساتھ آپ کی اَن بن ہوجائے، جب کہ آدمی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کرے جو آپ کے لیے شکایت کا باعث بن جائے۔ جب آدمی کی کسی روش پر آپ مشتعل ہوجائیں، یہی وقت دراصل کسی شخص کے تقویٰ کے امتحان کا وقت ہوتا ہے۔
جو آدمی اختلاف کے وقت اعتدال پر قائم رہے، جو دشمنی کے وقت انصاف کی بولی بولے، جو منفی تجربے کے وقت بھی مثبت ردّ عمل کا اظہار کرے، وہی متقی انسان ہے۔ وہی وہ انسان ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر بسا ہوا ہے۔ یہ ڈر اُس کے لیے اِس بات کا ضامن بن گیا ہو کہ وہ ہر حال میں تقویٰ کی روش پر قائم رہے، کسی کا ناروا سلوک اُس کو تقویٰ کی روش سے ہٹانے نہ پائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو اللہ کے یہاں متقی انسانوں میں شامل کیا جائے گا۔