تجرباتِ معرفت

(زیرِ نظر مضمون مولانا وحید الدین خاں صاحب کے اسفار اور ڈائری سے منتخب ہے)

خالق کی شہادت

ایک مرتبہ میں نے آل انڈیا ریڈیو کھو لا تو اس میں ایک گانا آرہا تھا ۔ اس کی ایک لائن یہ تھی :

جس کی رچنا اتنی سندر ہو، وہ کتنا سندر ہوگا

شاعر نے یہ مصرعہ اپنے مفروضہ محبوب کی نسبت سے کہا ہے، لیکن یہ مصرعہ زیادہ حقیقی طور پر پورے عالم ِ تخلیق کے لیے درست ہے۔ تخلیق کا ہر جُزء بے حد بامعنی ہے۔ ہر چیز اپنے ماڈل کے اعتبار سے فائنل ماڈل پر ہے۔ ایسی ایک کائنات کو دیکھ کر ہر سنجیدہ انسان اِس احساس میں غرق ہو جاتا ہے کہ جس ہستی کی تخلیق اتنی زیادہ کامل ہے ، وہ خود کتنا زیاد ہ کامل ہوگا۔

خدا کا احساس

ایک مسلم نو جوان سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دہلی کی ایک یونی ورسٹی میں پڑھتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں ایک فکری مسئلے سے دو چار ہوں۔ مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی ، میرا ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں خدا کو مانتا ہوں ، لیکن میں خدا کو محسوس نہیں کر پاتا۔ میں چاہتا ہوں کہ خدا کو احساس(feeling)کے ذریعے میں اپنی زندگی میں شامل کروں۔ اِس کی تدبیر کیا ہے۔میں نے کہا کہ احساس سے پہلے ایک پِری احسا س (pre-feeling)درکار ہے ، یعنی مطالعہ اور غور و فکر۔ آپ اپنے مطالعہ کو بڑھائیے ۔ اِس کے بعد آپ کو اِس مسئلے کا حل معلوم ہو جائے گا۔

 جب آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ آپ کواپنی ما ں سے جو تعلق ہے، وہ ٹکنکل نوعیت کا نہیں ہے، بلکہ وہ احسا س(feeling)کے درجے میں ہے ۔کیوں کہ آپ نے یہ حقیقت شعوری سطح پر دریافت کی ہے کہ میری ماں نے میرے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا ہے۔ اس کے برعکس، ماں سے سینکڑوں گنا زیادہ شفقت اللہ تعالیٰ کی آپ کے اوپر ہے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ ماں کو تو آپ نے احساس کے درجہ میں پایا ہے ، مگر خدا کو احساس کے درجہ میں نہ پاسکے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے ماں کی شفقت کو دریافت کیا، جب کہ آپ خدا کی شفقتوں سے شعور کی سطح پر بے خبر رہے۔

انسان کی زندگی

ایک سفر میں، میرا جہاز دہلی سے روانہ ہو کر منزل کی طرف پرواز کرنے لگا۔ وہ رُکے بغیر مسلسل اڑ رہاتھا۔ گھڑی کی سوئی بھی برابر آگے بڑھ رہی تھی۔ یہاںتک کہ روانگی کے ٹھیک ایک گھنٹہ اور 50 منٹ پر انائونسر نے اعلان کیا کہ اب ہم پونے کے ہوائی اڈہ پر اترنے والے ہیں۔

میں نے یہ الفاظ سنے تو مجھے محسوس ہوا جیسے انائونسر یہ کہہ رہا ہو کہ جہازکی پرواز کی آخری حد آگئی۔ پھر میں نے سوچا کہ مختلف جہازوں کی مختلف حد ہوتی ہے۔ کوئی جہازآدھ گھنٹہ اڑ کر اتر جاتا ہے کوئی ایک گھنٹہ اور کوئی دو گھنٹہ اور کوئی دس گھنٹے اڑنے کے بعد نیچے اترتا ہے۔

ٹھیک یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ایک شخص پیدا ہوتے ہی مر جاتا ہے۔ گویا اس کے جینے کی حد چند منٹ یا چند گھنٹے تھی۔ اسی طرح کوئی شخص چند سال گزار کر مرتا ہے۔ کوئی جوانی میں مر جاتا ہے۔  اور کوئی بوڑھاہو کر مرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عمر موت کی عمر ہے۔ آدمی کا ہر لمحہ اس کا آخری لمحہ ہے۔ ہر وقت آدمی اپنی آخری حد پرکھڑا ہوا ہے۔ زندگی کا یہ معاملہ اتنا عجیب ہے کہ آدمی اگر اس کو سوچے تو پُرعیش محل میں بھی اس کی  زندگی بے عیش ہو کر رہ جائے۔

آخرت کا ٹکٹ

میرے ساتھ بار بار ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ میں ٹکٹ کے باوجود سفر نہ کر سکا۔ مثلاً ایک بار میرے پاس لمبے عالمی سفر کا ٹکٹ تھا ۔ کسی وجہ سے مجھے اپنے سفر کو مختصر کرنا پڑا۔ میں نے ٹکٹ کی بچی ہوئی رقم کا واؤچر بنوالیا جو اس کے بعدکئی سفروں میں کام آیا۔ آخر میں میرے پاس دہلی- بمبئی (ممبئی) کا رٹرن ٹکٹ تھا۔ اس ٹکٹ کو دوبارہ رقم کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف سفر ہی میں اس کو استعمال کرنا ممکن تھا۔ مگر ایسے حالات پیش آتے رہے کہ میں بمبئی کا سفر نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ ٹکٹ کی مدت آخری طور پر ختم ہو گئی اور وہ استعمال کے قابل نہ رہا۔

تھوڑی دیر کے لیے احساس ہوا کہ ایک ٹکٹ بلاوجہ ضائع ہو گیا ۔مگر جلد ہی میرے اندر ایک نیا احساس جاگ اٹھا۔ میری زبان سے نکلا ’’خدایا، میں اس ٹکٹ کو دنیا کے سفر کے لیے استعمال نہ کر سکا۔ تو اپنی رحمت سے اس کو میرے لیے آخرت کا ٹکٹ بنا دے‘‘۔ اس کے بعد نقصان کااحساس جاتا رہااور دل میں ایک قسم کاسکون پیدا ہو گیا۔

پوائنٹ آف ریفرنس

2 نومبر 1991کو گھر سے نکل کر پونے کے سفر کے لیے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہواتو انسانی تاریخ کا نقشہ میرے ذہن میں گھومنے لگا۔ موجودہ زمانہ میں سفر کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے گھر سے نکلتا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ کر پختہ سڑکوں سے گزرتا ہوا اسٹیشن یا ایئر پورٹ پہنچتا ہے۔ وہاں اس کے لیے ایک اور سواری موجود ہوتی ہے جو اس کو لے کر تیزی سے آگے روانہ ہوتی ہے اور اس کو اس کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ منزل پر دوبارہ یہی سارے انتظامات ہوتے ہیں جن کو استعمال کر کے وہ اپنے آخری مطلوب مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

چند ہزار سال پہلے انسانی زندگی اس سے بالکل مختلف تھی۔ انسان نیم حیوانات کی طرح جنگلوں میں رہتاتھا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ترقی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ شہری زندگی کا وہ دور آگیا جس کومدنیت (urbanization) کہا جاتا ہے۔ مسلم عہد سے پہلے یہ رفتار بہت سست تھی۔ مسلم عہد میں انسانی تہذیب نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے بغداد کی جس طرح تعمیر کی وہ ماضی کے شہروں سے اتنا مختلف ہے کہ وہ شہری تاریخ میں ایک چھلانگ معلوم ہوتا ہے۔

اَربن پلاننگ کے پروفیسر ایگلی (Ernst Arnold Egli) نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن میں جنت کی زندگی اور جنت کے مکانات کا جس طرح بار بار ذکر کیا گیا ہے، اس نے مسلمانوں کے اندر عمدہ مکانات اور اعلیٰ تمدن کے بارے میں ایک خیالی تصویر (dream image) بنائی۔ انھوں نے اس خیالی تصویر کو واقعہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجہ میں مسلم دنیاکے جدید شہر وجود میں آ گئے۔ (Encyclopedia Britannica, Vol. 18, p. 1071)

مسلم تاریخ کے ان واقعات کو مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طور پر قومی فخر کے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ اس کو مسلمانوں کے پُرفخر کارنامہ کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ ان کو آلاء اللہ کے طور پر بیان کیا جانا چاہیے۔

اس دنیا کی ہر ترقی اصلاً امکانات قدرت کو ظہور میں لانے کا نام ہے۔ انسان ان امکانات کو ایجاد کرنے والا نہیں، وہ صرف ان کو استعمال کرنے والا ہے۔ جب ایسا ہے تو ہم کو چاہیے کہ ان ترقیوںکو دیکھ کر ہم خدا کے گیت گائیں، نہ کہ ان کو خود اپنے خانہ میں ڈال کر فخر اور ناز کرنے لگیں۔

خدا کی سنت: قانونِ تدریج

دہلی سے پونے 1600 کلومیٹر دور ہے۔ قدیم زمانہ میں دہلی سے پونے پہنچنے کے لیے 16 دن سے بھی زیادہ وقت درکار تھا۔ مگر آج یہ سفر صرف دو گھنٹے میں طے ہو جاتاہے۔ 2نومبر 1991کو میں نے عصر کی نماز دہلی (نظام الدین) کی کالی مسجد میں ادا کی۔ مغرب کی نماز دوبارہ دہلی ایئر پورٹ پر پڑھی اور عشاء کی نمازکے وقت میں پونے پہنچ چکا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو پیروں کے ساتھ پیداکیا تاکہ وہ چل سکے۔ پھر اس کوگھوڑادیا جوگویا سواری کی زندہ مشین ہے۔ اس کے بعد انسان پر اسٹیم اور پٹرول کی طاقت منکشف کی جس کے نتیجہ میں ٹرین اور کار بنے۔ اور آخر میں ہوائی جہاز جیسی تیز رفتار سواری اس کو عطا کی۔

اس تدریجی طریق کار کے نتیجہ میںایسا ہواکہ پیغمبروں میں سے کسی بھی پیغمبر کے لیے کار اور ہوائی جہاز پر بیٹھنا ممکن نہ ہو سکا ۔ پیغمبر تمام انسانوں میں سب سے زیادہ مقدس لوگ تھے۔ مگر ان کے تمام تر تقدس کے باوجود خدا نے ان کے لیے اپنے قانونِ تدریج (law of gradualism)کو نہیں توڑا۔ اس سے خدا کی سنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تدریج اس دنیاکے لیے خدا کا اٹل قانون ہے۔ وہ کسی بھی وجہ سے، اور کسی کے لیے بدلا نہیں جاتا۔

فئۃ قلیلۃ

پونے کے سفر (1991)کا واقعہ ہے۔روزانہ صبح اور شام کو مقامی احباب رہائش گاہ پر آتے رہے اور ان سے سوال و جواب کی صورت میں گفتگو ہوتی رہی۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ہندستان کے مسلمانوں کے بارے میں مَیںانتہائی پُرامید ہوں۔ ان کے بارے میں قرآن کی یہ آیت صادق ہوتی نظر آتی ہے:كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ   ( 2:249)۔ یعنی، کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت میں خدا کا یہ قانون بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ فئۃ قلیلہ اکثر فئۃ کثیرہ پر غالب آتا ہے۔ ایک عرصہ تک مسلمان سیاسی جوش و خروش میں اپنی قوتیں ضائع کرتے رہے۔ اب حالات کا دبائو مسلمانوں کو صحیح رخ دے رہا ہے۔ وہ سیاست کے محاذ سے ہٹ کر تعمیر کے میدان میں سرگرم عمل ہو رہے ہیں۔

تکلیف اور استطاعت

 ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اس وقت ہم ’’مکی دور‘‘ میں ہیں اور ہم مکی دور میں اترنے والے احکام کے مخاطب ہیں۔ آپ کس بنیاد پر ایسا کہتے ہیں جب کہ اب مکمل قرآن اتر چکا ہے اور وہ آج مکمل صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔

میں نے کہا کہ یہ بات قرآن کے اصول تکلیف سے نکلتی ہے۔قرآن کے متعلق الفاظ یہ ہیں: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (2:286)۔یعنی، اللہ کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان یا کسی جماعت کے اوپر قرآن کے احکام کا انطباق باعتبارِ وسعت ہے، نہ کہ باعتبارِ تنزیل۔ حج اور زکوٰۃ کے احکام اتر چکے ہیں۔ مگر ان احکام کی فرضیت صرف ان افراد کے اوپر ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ یہی معاملہ تمام احکام کا ہے۔ آدمی جس حکم کی تعمیل کی استطاعت رکھتا ہو اس کا وہ مکلف بن جائے گا۔ اور جس حکم کی وہ استطاعت نہ رکھتا ہو اس کا وہ مکلف نہیں بنے گا۔

مشکلاتِ حاضرہ، امکاناتِ حاضرہ

6 نومبر کو مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد پونے کی مکہ مسجد میں عمومی خطاب ہوا۔ موضوع رکھا گیا تھا:حالات حاضرہ اور مسلمان۔ میں نے کہا کہ اس عنوان کا میرے نزدیک دو پہلو ہے۔ ایک، مشکلات حاضرہ اور مسلمان۔ اور دوسرا ، امکانات حاضرہ اور مسلمان۔ اس کے بعد تفصیل سے میں نے بتایا کہ بلاشبہ ہمارے لیے کچھ مشکلات ہیں۔ مگر اس قسم کی مشکلات ہر سماج میں اور ہر ملک میں ہمیشہ رہتی ہیں۔ مزید مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ امکانات کی مقدار مشکلات کی مقدار سے ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے اور آج بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو پریشان ہونے کے بجائے امکانات کو تلاش کرکے اس کو استعمال (avail)کرنا چاہیے۔

مطالعہ کا درست طریقہ

ایک تعلیم یافتہ عیسائی نے کہا کہ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا ہے ۔ مگر بعض سوالات میرے ذہن کو الجھارہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون سے سوالات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں غلامی کا مسئلہ، پیغمبر کا کئی شادیاں کرنا ، حجرِ اسود کو چومنا ، وغیرہ ۔

میں نے کہا کہ اسلام یا کسی بھی نظام کا مطالعہ کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں ۔ ہر مذہب یا ہر نظام میں کچھ بنیادی چیزیں ہوتی ہیں اور کچھ فروعی چیزیں ۔ ایک سنجیدہ متلاشی کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ پہلے زیر ِمطالعہ مذہب یا نظام کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے جب ان کے بارےمیں پوری واقفیت حاصل ہو جائے ، اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ فروعی یا ضمنی باتوں کو سمجھا جائے۔

میں نے کہا کہ اگر آپ امریکہ کے نظام ِتہذیب کو سمجھنا چاہیں تو اس کا آغاز آپ یہاں سے نہیں کریں گے کہ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن اپنی جیب میں ہمیشہ سونے کی نعل کیوں رکھتے تھے۔ مطالعہ کا یہ طریقہ درست نہ ہوگا ۔ اس کے برعکس، آپ یہ کریں گے کہ پہلے امریکہ کی تاریخ ، اس کے علوم ، اس کے قانون اور اس کے صنعتی اور تجارتی طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہی طریقہ علمی طریقہ ہے اور یہی طریقہ آپ کو اسلام کے مطالعے میں بھی اختیار کرنا چاہیے۔

ہوائی جہاز اور سیارۂ زمین

27 نومبر 1994دہلی سے ایئر فرانس کی فلائٹ نمبر 177 کے ذریعہ اسپین کا سفر ہوا۔ ہوائی جہاز کی سواری مجھ کو ایک خدائی نشانی نظر آتی ہے۔ ہوائی جہاز کی ایک عجیب صفت یہ ہے کہ وہ انسان کی اُس کمزوری (vulnerability) کو عملی شکل میں ظاہر کرتا ہے جو زمین کے اوپر اسے حاصل ہے۔ زمین فٹ بال کی مانند ایک بڑا سا گولا ہے جو خلا (space)میں تیز رفتاری کے ساتھ سورج كے اردگرد گھوم رہا ہے۔اسي طرح ایک جہاز انسانوں کو لیے ہوئےزمین کی فضا میں پرواز کرتا ہے۔ خلا میں گردش كرنے والے اس کرہ (planet) پر انسان آباد ہے۔ زمین کي اس مسلسل گردش میں اگر ذرا سا بھی خلل پڑ جائے تو ایک لمحہ میں نسلِ انسانی کا خاتمہ ہو جائے۔ جس طرح فضا میں پرواز کرتے ہوئے جہاز میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو وہ اپنے اندر موجود تمام مسافروں کی ہلاکت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

 کرۂ زمین پر اپنی اس غیر محفوظیت کو انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتا، اس لیے وہ اس کو محسوس بھی نہیں کر پاتا۔ ہوائی جہاز آدمی کی اسی غیر محفوظ حالت کا محدود سطح پر ایک وقتی مظاہرہ ہے۔ ہوائی جہاز انسان کی حیثیتِ عجز کی گویا ایک مشینی یاد دہانی ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز اس لیے ہے کہ آدمی اس سے روحانی تجربہ حاصل کرے۔ مگر یہ روحانی تجربہ صرف اس کے حصہ میں آتا ہے جو میٹر میں نان میٹر کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

بیت المقدس میں دعا

اسرائیل کے سفر میں29 اپریل 1995 کو دوسری بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ اس وقت اسرائیل کے اعتبار سے9 بجے صبح کا وقت تھا اور ہندستان کے لحاظ سے ساڑھے گیارہ بجے کا۔ نماز پڑھتے ہوئے دل بھر آیا۔ سجدہ میں روتے ہوئے دعا کے یہ الفاظ نکلے کہ خدایا!زمانہ کا فرق تیرے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ تو میرے لیے زمانی دوری کو ختم کر دے۔ مجھ کواس مقدس جماعت کی صفوں میں شریک کر دے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں امامت کر رہے تھے اوران کے پیچھے انبیاء صف باندھ کر نماز ادا کر رہے تھے۔

تعمیر ِدنیا، تعمیر ِشخصیت

ایک ہوائی سفر میں اسرائیلی ایئر لائنز(EL AL)کا فلائٹ میگزین(جولائی- اگست 1995ء) دیکھا۔ اس میں کثرت سے مکانات کے اشتہار تھے۔ مختلف کمپنیوں کے بنائے ہوئے مکانات کی خوب صورت تصویریں اور ان کے نیچے اس طرح کے خوش کن الفاظ لکھے ہوئے تھے — آپ کے خوابوں کا گھر اسرائیل میں موجود ہے(Your dream home in Israel)یا یہ کہ اس خوبصورت کامپلکس میں اپنے لیے ایک اپارٹمنٹ حاصل کیجیے اور دنیا کی جنت میں رہنے کا لطف اٹھائیے۔ میں نے ایک اسرائیلی مسافر کو یہ اشتہارات دکھا کر اس کا تاثر پوچھا۔ اس نے کہا کہ ہم نے خوبصورت قسم کے رہائشی مکانات تو ضرور بنا لیے ہیں، مگر ایک نامعلوم خوف ہر یہودی کے دماغ میں ہوتا ہے کہ کیا معلوم، کب کہاں ایک بم پھٹ جائے۔

یہ صرف اسرائیل کا معاملہ نہیں ہے۔قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا انسان کے لیے پرفیکٹ ورلڈ نہیں ہے،یہ دنیا انسان کے لیے دارالکبد ہے (90:4)۔اس دنیا میں انسان کو کبد یا عُسر (hardship)کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔یہاں انسان کو مختلف قسم کےحزن (sorrow) کا تجربہ ہوتا ہے۔یہاں اس کو ہر قدم پر محدودیت (limitations)کا سامنا کرنا پڑتاہے۔یہاں انسان کے لیے فُل فِل مینٹ (fulfillment) کا سامان موجود نہیں ہے۔یہاں تکلیف ہے۔ یہاں بورڈم (boredom) ہے، وغیرہ۔اس کا تجربہ دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے ہر مرد اور ہر عورت کو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔

اس کے بالمقابل قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں کے ماحول کا تجربہ کریں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا:اُس اللہ کا شکر ہے جس نے خوف وحزن کو ہم سے دو رکردیا(35:34)۔ اسی طرح قرآن میں دوسرے مقام پر یہ ہے: تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے (41:31)۔

دونوں دنیاؤں کے فرق کو سامنے رکھنے سے انسان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں تعمیرِجنت کی جدوجہد کرنے کے بجائے آخرت کی جنت کے لیے اپنے اندر ربانی پرسنالٹی تعمیر کرے۔

اطمینان کی متلاشی دنیا

1991 میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پونے کا سفر ہوا۔کانفرنس میں شریک ہونے والوں میں ایک 36 سالہ جرمن خاتون ڈیلی گیٹ Mrs. Ursula McLackand تھیں۔ انہوں نے ایک میٹنگ میں اپنا تجربہ بتایا جو بہت سبق آموز تھا۔ وہ تجربہ،  ان کے الفاظ میں، یہ تھا:

The highest value in the eyes of the German youths is to become independent. Personally, I don't agree. I was educated to look forward to lead an independent life away from my family as soon as I entered university. But, to my surprise, I was lonely and miserable, missing the interaction with my family. I, therefore, came back to my family. I also joined the German Unification Church to fill the gap in my life. However, I think I am rather an exception. Those of my generation are also not happy but they do not know why that is so. They have lost their conviction, becoming sceptics. One reason of the ever-increasing tourism industry lies in the restlessness found in our generation. It is this dissatisfaction with their lives that they are attracted to travelling, in search of some happiness, and fulfillment in life.

جرمن نوجوانوں کی نظر میں سب سے زیادہ قابل قدر چیز آزاد ہونا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ۔ میری تعلیم اس ڈھنگ پر ہوئی کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد میں اپنے خاندان سے باہر اپنےلیے ایک آزادانہ زندگی گزاروں۔ مگر جب میں نے ایسا کیا تو تعجب خیز طور پر میں نے پایا کہ میں تنہا ہو گئی ہوں اور مصیبت میں پڑ گئی ہوں۔ میرے خاندان سے میرا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ آخر کار میں اپنے خاندان کی طرف واپس آئی۔ مزید میں یونی فیکشن چرچ سے وابستہ ہو گئی تاکہ میں اپنی زندگی کے خلا کو پُر کر سکوں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ میں جرمنی میں ایک استثناء ہوں۔ میری نسل کے اور جو لوگ ہیں وہ خوش نہیں ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے۔ انھوں نے یقین کو کھو دیا ہے۔ وہ شک میں مبتلا ہیں۔

آج کل مغربی سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یہ لوگ خوشحال زندگی (luxurious life) گزارنےکے باوجود اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں، اس لیے وہ اپنے مقامات سے نکل کر اِدھر اُدھر جا رہے ہیں تاکہ وہ زندگی میں خوشی اور اطمینان کو تلاش کر سکیں۔ منشیات وغیرہ میں اضافہ کا سبب بھی یہی ہے۔ یہ صورتِ حال مسلمانوں کو اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ قرآن کے پیغام کو ساری دنیا میں انسانوں کی قابلِ فہم زبان میں عام کریں، تاکہ لوگوں کو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے اطمینان حاصل ہو۔

جنت کا تصور

ڈارون نے اپنی کتاب ’ڈسنٹ آف مین ‘ میں لکھا ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے چڑیوں سے بولنا سیکھا۔ یہ بلاشبہ ایک فرضی قیاس ہے ۔ میرا اپنا حال یہ ہے کہ میں چڑیوں کو جب دیکھتا ہوں تو مجھے جنت کا ماحول یاد آتا ہے ۔ چڑیاں مجھے جنتی مخلوق جیسی نظر آتی ہیں۔ چڑیوں کے ہر فعل میں اتنا حسن ہے کہ ان کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چڑیوں کو خدا نے اِ س دنیا میں رکھا ، تاکہ انسان جنت کا تصور کر سکے۔ چڑیوں کا چہچہانا، چڑیوں کااڑنا، چڑیوں کا اترنا ، چڑیوں کی صورت ہر چیز میں ایک عجیب و غریب کشش ہے۔

جنت، اعلی افراد کی سوسائٹی

میرا تجربہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر سب سے زیادہ جس چیزکی کمی ہے ، وہ ہے آرٹ آف تھنکنگ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو سوچنے کا فریم ورک معلوم ہو اور اسی کے مطابق ، وہ سوچے لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اِس بنیادی چیز سے بےخبر ہیں، مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی حیوان بشکل انسان بنا ہوا ہے۔ کل ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جنت میں حوریں ملیں گی ، مگر میرے نزدیک ، جنت میں جو سب سے زیادہ قیمتی چیز ملے گی ، وہ انٹلیکچول پارٹنرس (Intellectual Partners)ہیں۔ اِس حقيقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَحَسُنَ أُولئِكَ ‌رَفِيقاً(4:69)۔ یعنی، کیسی اچھی ہے ان لوگوںکی رفاقت۔

 جنت میں ایسے انسان ملیں گے جن سے بات کر کے خوشی ہو، جس کے اندر اعلیٰ درجے کا آرٹ آف تھنکنگ ہو، جو حقیقی معنوں میں سچے انسان ہوں۔ جنت میں یہ ہوگا کہ پوری تاریخ سے اعلیٰ انسان منتخب کر کے جمع کر دیے جائیں گے ۔ جنت منتخب افراد کی سوسائٹی ہوگی ، جب کہ موجودہ دنیا غیر منتخب افراد کاجنگل ہے۔

صلاۃ اسپرٹ

فرینکفرٹ ایر پورٹ (جرمني)پر میں نے 4 مئی 1990کو فجر کی نماز پڑھی۔ ایک جرمن خاتون میری نماز کو غور سے دیکھتی رہی۔ جب میں فارغ ہو کر اٹھا تو اس نے معذرت کے ساتھ پوچھا ’’کیا آپ یو گا کاعمل کر رہے تھے‘‘۔ میں نے کہا نہیں، میں صلاۃ کا عمل کر رہا تھا۔ وہ یوگا کو جانتی تھی ، مگر وہ صلاۃکو نہیں جانتی تھی۔ اس نے پوچھا کہ صلاۃ کیا چیز ہے۔ میں نے کہا ، کیا آپ خدا کو مانتی ہیں۔ اس نے کہا ہاں، میں نے کہا کیا آپ مانتی ہیں کہ خدا ہمارا خالق اور رب ہے۔ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا پھر نماز اسی خالق اور مالک کی عظمت اور اس کے احسان کا اعتراف ہے۔خداصبح لاتا ہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدا یا تیرا شکر ہے کہ تونے میرے لیے دن کو روشن کیا تا کہ میں کام کروں ۔ خداشام لاتا ہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو میرے لیے رات لا یا تا کہ میں آرام کروں۔ اس طرح ہم رات اور دن میں پانچ بار خدا کی عظمت اور اس کے انعامات کااعتراف کرتے ہیں۔ جرمن لیڈی بہت غور سے میری بات کو سنتی رہی۔ اس کے بعد تھینک یو ، تھینک یو کہتی ہوئی چلی گئی۔

تھنکنگ اِن دی اسکائی

ایک ہوائی سفر میں میری سیٹ پر ایک خوبصورت ساپمفلٹ تھا۔ اس پر لکھا ہوا تھا : آسمان میں خریداری (shopping in the sky)۔ اس پمفلٹ میں بتایا گیا تھا کہ دورانِ پرواز آپ جہاز کی  ’’مارکٹ‘‘ سے کیا کیا چیز خرید سکتے ہیں۔ میں نے مذکورہ جملہ پڑھا تو معا ً مجھے خیال آیا کہ دوسرے مسافروں کا کیس اگر ’’شاپنگ اِن دی اسکائی‘‘ ہے تو میرا کیس ’’ تھنکنگ اِن دی اسکائی ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ میراذہن ہمیشہ سوچنے میں لگا رہتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ دنیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

دنیا میں بیشتر لوگ ’’شاپنگ ‘‘کو اصل کارنامہ سمجھتے ہیں۔ یعنی دنیا کی مارکیٹ میں جو چیزیں مل رہی ہیں ، اس کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے لیے سمیٹ لیں۔ کچھ لوگ ظاہری مادی سامان خریدتے ہیں اور کچھ لوگ اخباری شہرت ،عوامی مقبولیت ، اسٹیج کی لیڈری کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر اس کو حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز جو اس دنیا سے حاصل کی جائے وہ تدبر ہے جس کو قرآن(3:191) میں ذکر و فکر کہا گیا ہے۔يه كچھ مخصوص قسم کے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ یہ در اصل ذہنی تخلیق کا ایک عمل ہے۔آدمی روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات پر غور کرکے اُن کو روحانی تجربے میںکنورٹ کرتا ہے۔ وہ دنیا کے مادی واقعات سے ربانی سبق حاصل کرتا ہے۔ وہ عالم ِظاہر سے ایک عالمِ روحانی تعمیر کر تا ہے۔ اسی کا نام ذکر وفکر ہے۔

ہر چیز امتحان ہے

قدیم زمانہ میں شولا پور میں دیوگری یادو کا راج تھا۔ پھر وہ مسلم بہمنی سلطنت کا جزء بنا۔ اس کے بعد اس پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1947ء سے وہ تقسیم کے بعد بننے والے ملک (بھارت) کا ایک حصہ ہے۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں ( 3:140) ۔

حکومتی اقتدار اس دنیا میں کسی ایک گروہ کی میراث نہیں ہے۔ یہ خدا کی سنت ابتلاء کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی ایک گروہ کو سیاسی غلبہ دیتے ہیں اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار کسی گروہ کو ملے تب بھی وہ اس کے لیے امتحان ہے اور کسی گروہ سے سیاسی اقتدار چھن جائے تب بھی وہ اس کے لیے امتحان (6:165)۔ آدمی کو چاہیے کہ دونوں حالتوں میں وہ اپنی ذمہ داریوں پر دھیان دے، نہ کہ اقتدار ملنے پر احساس برتری میں مبتلا ہو اور اقتدار چھنے تو احساس کمتری کا شکار ہو جائے۔

مومنانہ مزاج

15 دسمبر 1992ء کو صبح 8 بجے دہلی سے بمبئی کا سفر ہوا۔جہاز میں انڈین ایکسپریس (15 دسمبر) کا مطالعہ کیا۔ اس میں ایک خبر یہ تھی کہ بھوپال میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع 19-21 دسمبر کو ہونے والا تھا ۔ توقع کے مطابق اس اجتماع میں دو لاکھ آدمی شریک ہوتے۔ مگر فسادات کی وجہ سے بھوپال میں ابھی تک کرفیو چل رہا ہے، اس لیے ریاستی انتظامیہ کو تشویش ہوئی۔ مدھیہ پردیش کی حکمراں پارٹی (بی جے پی) نے بدل کے طور پر یہ تجویز کیا کہ اجتماع کو مختصر طور پر غیر نمایاں انداز میں کیا جائے اور تبلیغی جماعت کے لوگ راضی ہو گئے:

As an alternative, the ruling party leaders have requested the organisers to keep it a low-key affair and they have agreed (p.12).

یہ نہایت صحیح فیصلہ ہے۔ اس طرح کے نازک مواقع پر اگر اس طرح ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے تو بیشتر سماجی جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ اسی مومنانہ مزاج کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیاہے کہ مومن کی مثال میدان میں اگی ہوئی گھاس کی مانند ہے۔ اِدھر کی ہوا چلی تو اُدھر جھک گیا اور اُدھر کی ہوا چلی تو اِدھر جھک گیا ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2810؛ صحیح البخاری، حدیث نمبر 5644)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom