رمی ِ جمار
رمیِ جمار کا لفظی مطلب ہے، کنکری سے مارنا۔ رمیِ جمار یا رمی ،حج کا ایک عمل ہے ۔ مسلمان دورانِ حج جمرات کے مقام پر تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتے ہیں۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں نبی ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جاری ہے۔
رمیِ جمار کی حیثیت پہلے بھی علامتی (symbolic) تھی، اور آج بھی ا س کی حیثیت علامتی ہے۔ رمیِ جمار کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی اسلامی عمل کے وقت شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالے ، شیطان آدمی کو اسلامی عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو انسان اس وسوسے کو جان لے۔ وہ نئے ارادے کے ساتھ اپنے اسلامی عمل کو جاری رکھنے کا عزم کرے۔ رمیِ جمار کوئی مادی واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ارادے کو زیادہ قوی کرنے کا ایک علامتی طریقہ ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (7:201)۔ یعنی جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آجاتی ہے۔
موجودہ دنیا میں کوئی شخص نفس اور شیطان کے حملوں سے خالی نہیں رہ سکتا۔ ایسے موقع پر جو چیز آدمی کو بچاتی ہے وہ صرف اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کو بےحد حساس بنا دیتا ہے۔ یہی حساسیت موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کی سب سے بڑی ڈھال ہے۔ جب بھی آدمی کے اندر کوئی غلط خیال آتا ہے یا کسی قسم کی منفی نفسیات ابھرتی ہے تو اس کی حساسیت فوراً اس کو بتا دیتی ہے کہ وہ پھسل گیا ہے۔ ایک لمحہ کی غفلت کے بعد اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اللہ سے معافی مانگتے ہوئے دوبارہ اپنے کو درست کرلیتا ہے— حساسیت آدمی کی سب سے بڑی محافظ ہے جب کہ بےحسی آدمی کو شیطان کے مقابلہ میں غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔