بڑھاپے کا سبق
فطرت کے قانون کے مطابق، انسان کے لیے مقدر ہے کہ وہ بچپن اور جوانی سے گزر کر بڑھاپے کے دور میں پہنچے۔جو آدمی بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے، اس کو معلوم ہے کہ بڑھاپا کیا چیز ہے۔ بڑھاپا ضعف کا تجربہ ہے۔ ضعف کی حالت کیا چیز ہے، اس کا تجربہ آدمی کو بڑھاپے کی عمر میں ہوتاہے۔ دیہات کی ایک خاتون نے اپنی دیہاتی زبان میں کہا تھا: ای انگلیا دبائوں تو پیڑا، او انگلیا دبائوں تو پیڑا (اس انگلی کو دبائوں تب بھی درد، اس انگلی کو دبائوں تب بھی درد)۔
انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت تجربہ درد کا تجربہ ہے۔ انسان ایک ضعیف مخلوق ہے۔ اپنے اس ضعف کی بنا پر انسان درد (sorrow) کو برداشت نہیں کرپاتا ۔ بڑھاپے کا یہ تجربہ اس لیے پیش آتا ہے کہ آدمی دنیا کی تکلیف کا تجربہ اٹھاکر آخرت کی ابدی تکلیف کو محسوس کرے۔ اسی لیے قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ انسان جب جنت میں پہنچے گا تو وہ کہے گا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ (35:34)۔یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کیا۔ بیشک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ، قَالَ: مَنْ طَالَ عُمُرُهُ، وَحَسُنَ عَمَلُهُ، قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ قَالَ: مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2330)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دریافت کیا کہ اے خدا کے رسول، کون آدمی سب سے بہتر ہے؟ آپ نے کہا: جس کی عمر لمبی ہو، اور جس کے عمل اچھے ہوں، اس نے پھر پوچھا: کون آدمی سب سے برا ہے؟ آپ نے کہا: جس کی عمر لمبی ہو، لیکن اس کے عمل برے ہوں۔ بڑھاپا گویا ایک قسم کا جبر (compulsion) ہے۔ بڑھاپے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک اگر نہ کرسکے تو اب سے کرلو۔ اگر تم نے جوانی کو کھودیا ہے تو اپنے آپ کو اس سے بچائو کہ بڑھاپا بھی تم سے کھویا جائے۔