امام رازی کا قصہ
امام فخر الدین رازی1150 میں رے (ایران ) میں پیدا ہوئے، اور 1210 میںہرات (افغانستان) میں ان کی وفات ہوئی۔کتابوں میں امام رازی کی طرف منسوب ایک واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہےکہ امام الرازی نے خدا کے وجود پر 101 دلیلیں قائم کر رکھی تھی۔ لیکن ان کی وفات کے موقع پر شیطان بزرگ آدمی کی صورت میں آیا۔اس نے کہا ذرا یہ تو بتاؤ خدا کو کس طرح پہچانتے ہو۔امام صاحب نے ایک دلیل دی شیطان نے توڑ دی،دوسری دی وہ بھی توڑ دی،تیسری دلیل دی وہ بھی توڑ دی،امام صاحب نے نزع کے وقت خدا کو ماننے اور پہچاننے کی ایک سو ایک دلیلیں پیش کیں، شیطان نے سب توڑ دی۔
خواجہ نجم الدین کبری امام فخر الدین رازی کے پیر ہیں۔خواجہ نجم الدین نےکشف کے ذریعے جانا کہ شیطان امام رازی پر نزع کے وقت حملہ آور ہے۔خواجہ صاحب نے بذریعہ کشف وہیں سے کہا’’رازی تو چرانمی گوئی کہ من خدا را بلا دلیل می شناسم (تو یہ کیوں نہیں کہتا ہے کہ میں خدا کو بغیر دلیل مانتاہوں)‘‘۔امام فخر الدین رازی نے جب اپنے پیر کی آواز سنی تو فورا کہا ’’شیطان میں خدا کو بغیر دلیل مانتا ہوں‘‘۔ (امام رازی، عبد السلام ندوی، صفحہ8)
اس کا مطلب یہ نہیں ہے امام رازی کے پاس یا کسی انسان کے پاس خدا کے وجود کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر منطقی دلیل کا ایک جواب موجود ہوتا ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ خدا کے وجود کے بارے میں اتنا غور کرے کہ اس کو وجدان (intuition) کی سطح پر خالق کے وجود پر یقین ہوجائے۔
مجھ پر یہ تجربہ گزرا ۔ میں نے اس پر بہت زیادہ غور کیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا— خدا کو ماننا بظاہر عجیب ہے۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے زیادہ عجیب ہے۔ میں جب خدا کو مانتا ہوں تو میں زیادہ عجیب کے مقابلے میں کم عجیب کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرا یہ جواب وجدان (intuition) پر مبنی تھا۔