دورِ زوال کی علامت
صبر کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سیلف ڈسپلن کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سچے مومن کی ایک علامت سیلف ڈسپلن ہے۔
سیلف ڈسپلن (self-discipline) سے دورکرنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلاً ایک سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنا ، تکلف کا طریقہ اختیار کرنا، دوسرے انسانوں کو دھکا دے کر آگے بڑھنا، مجلس میں ہنسنا اور مذاق اڑانا، ایک آدمی بول رہا ہو تو اس کی بات ختم ہونے سے پہلے بولنا، وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا نہ کرنا، غیر سنجیدہ گفتگو کرنا، منفی رویہ اختیار کرنا، ایک دوسرے پر فخر کرنا، بات چیت میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کرنا، دلیل کے بجائے عیب جوئی کی زبان بولنا، زیادہ بولنا یا زور زور سے بولنا، کھانا اور پانی ضائع كرنا، وغیرہ۔
مثلاً انڈیا کے ایک عالم نے شام کا سفر کیا۔ وہاں ان کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ وہاں کھانے کے بہت سے آئٹم تھے، لیکن ’’شامی کباب‘‘ موجود نہیں تھا۔ عالم نے تفریحی انداز میں کہا: آپ کے یہاں کھانے میں بہت سی چیزیں موجود تھیں، لیکن وہ چیز موجود نہ تھی، جس کو آپ کے نام سے منسوب کرکے شامی کباب کہتے ہیں۔ اس پر لوگ ہنس پڑے۔ صاحبِ خانہ نے معذرت کا اظہار کیا۔
سیلف ڈسپلن کی صفت کا نہ ہونا دورِ زوال کی علامت ہے۔ دورِ زوال میں امت کے اندر جو خرابی پیدا ہوتی ہے، وہ دین کی اصل روح کا مفقود ہوجانا اور دین کی ظاہری شکلوں کا باقی رہنا۔ اِس تفریق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امت کے درمیان بظاہر دین کے نام پر طرح طرح کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں، لیکن دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے عملاً موجود نہیں ہوتا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری دین داری کے باوجود مسلمان بے اصول زندگی گزارتے ہیں۔اسی بے اصول زندگی کو مذہبی زبان میں بے صبری کی روش کہا جاتا ہے۔