حجۃ الوداع کا سبق
حجۃ الوداع 10ھ میں پیش آیا۔اس حج کو حجۃ الوداع اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس حج کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو وداع کہا تھا۔ آپ نے کہاتھا کہ شاید اس سال کے بعد آئندہ اس جگہ تم سے میری ملاقات نہ ہو سکے گی۔اور اس کے تقریباً دو ماہ بعد مدینہ میں آپ کی وفات ہو گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حج مختلف پہلوؤں سے اہل ایمان کو گائڈ کرتاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حج کے سفر کا ارادہ کیا تو اس کی خبر عرب میں پھیل گئی اور لوگ مدینہ آنا شروع ہوگئے۔ آپ 25 ذی قعدہ 10 ھ کو مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں بھی لوگ اس قافلہ میں شریک ہوتے رہے۔صحابیِ رسول حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری نگاہ جہاں تک جاتی تھی مجھے ہر طرف انسان ہی انسان دکھائی دیتے تھے۔ مکہ پہنچ کر یہ مجمع تقریباً سوا لاکھ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے ۔ یہ ایک عمدہ قسم کی تیز رفتار اونٹنی تھی۔ تاہم اس وقت اس کے اوپر جو کجاوہ بندھا ہوا تھا، اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔ گویا ضرورت کی حد تک اعلیٰ معیار ،لیکن جہاں ضرورت کی حد ختم ہو جائے وہاں صرف سادگی۔
آپ 4ذی الحجہ کو مکہ پہنچے۔ مکہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے آپ حرم میں داخل ہوئے اور آپ نے کعبہ کا طواف کیا۔ اوریہ قرآنی دعا کیاے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (2:201)۔ انسان ايك لمحه بھي بھلائی اور خیر سے محروم ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ اس لیے ہر عورت اور ہرمرد کو چاہیے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے خیرکا طالب بنا رہے، اور اس كے ليےدعا کرے۔
8 ذی الحجہ کو آپ اپنے تمام اصحاب کے ساتھ منیٰ گئے۔روانگی کے وقت کوئی طواف نہیں کیا۔ اس دن ظہر، عصر ، مغرب اور عشا کی نمازیں آپ نے منیٰ میں پڑھیں اور رات کو یہیں قیام کیا۔ صبح 9 ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد آپ عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ نمرہ (وادی عرنہ) کے ایک خیمہ میں اترے۔ صحابہ میں سے کوئی لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔اس میں یہ سبق ہے کہ شریعت میں اگركسي موقع پر ایک سے زیادہ چیزوں کے درمیان کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت هوتو اس ميں سےکوئی بھي چیز اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس آپشنل انتخاب (optional choice)کو افضل اور غير افضل كے نام پر نزاع کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
جب آپ عرفہ سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے۔آپ کے ساتھ اسامہ بن زید آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ راستہ بھر تلبیہ کرتے رہے۔ مزدلفہ پہنچنے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے دیکھا کہ راستے میں کچھ لوگ تیز چل رہے ہیں تو آپ نے ایسا کرنے سے منع کیا۔ آپ نے کہا لوگو! سکون اور اطمینان کے ساتھ چلو۔ دوڑ نا کوئی ثواب کی بات نہیں (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر9483)۔ اسی طرح آپ زندگی کے تمام معاملات میں عدم عجلت اورآسانی کو اختیار کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
حضرت اسامہ بن شُریک کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں تھے تو لوگ آپ کے پاس سوال پوچھنے کے لیےآتے تھے۔ کوئی شخص کہتا کہ اے خدا کے رسول، میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی۔ کوئی کہتا کہ میں نے رمی جمار سے پہلے حلق کر الیا۔ کسی نے کہا کہ میں نے پہلے قربانی کی اور اس کے بعد رمی کیا۔ اسی طرح لوگ مختلف مسائل پوچھتے رہے۔ آپ اس قسم کے سوالات کے جواب میں فرماتے: لاَ حَرَجَ،لاَ حَرَجَ (کوئی نقصان کی بات نہیں، کوئی نقصان كي بات نہیں)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے کہانقصان کی بات تو یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کو بے عزت کرے، ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ اسی نے گھاٹےوالا کام کیا اور وہی ہلاک ہوا (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2015)۔
یہ صرف حج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہی سارے دین کی اسپرٹ ہے۔ ایک مرتبہ چند اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا فلاں کام کرنے میں میرے لیے کوئی نقصان كي بات ہے، فلاں کام کو کرنے میں کوئی نقصان ہے۔ آپ نے ان سے کہا اللہ کے بندو، اللہ نےمشکل کو دور کردیا ہے، سوائے یہ کہ کوئی انسان اپنے بھائی کی بےعزتی کرے تو یہی نقصان کی بات ہے (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 6061)۔ اس لیے ایک انسان کو اپنے بھائی کے خلاف كسي بھی اقدام سے پہلے بہت زیادہ سوچنا چاہیے۔
حجۃ الوداع کا خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری اہم ترین تقریر ہے۔ آپ نے یہ خطبہ 9 ذی الحجہ 10ھ کو عرفات کے میدان میں دیا تھا۔ حجۃ الوداع گویا زمانۂ نبوت کا سب سے بڑا اسلامی اجتماع تھا۔ اس موقع پر تقریباً سوا لاکھ اصحابِ رسول جمع تھے۔ اس میں آپ نے ان تمام باتوں کا آخری طور پر اعلان کر دیا جس کے لیے آپ مبعوث کیے گئے تھے۔
اس خطبہ میں آپ نے جن باتوں کا اعلان فرمایا ان میں سے یہ بھی تھا۔ تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیےاسی طرح قیامت تک کے لیے قابلِ تعظیم ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر قابلِ تعظیم ہے۔پھر فرمایا، میری بات سنو اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ خبردار، ظلم نہ کرنا۔کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں۔ اور کسی کا لے کو کسی سرخ پر فضیلت نہیں اور کسی سرخ کو کسی کالے پر فضیلت نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ پر ہے۔ تم لوگ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔اس خطبہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر امانت کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔
ایک اور اہم بات جو آپ نے اس خطبہ میں بتائی، وہ یہ تھی کہ جو لوگ بھی یہاں موجود ہیں، وہ میری باتوں کو ان لوگوں تک پہنچائیں، جو یہاں موجود نہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 67)۔ یہ گویا آپ نے اپنےمشن کے تسلسل کو باقی رکھنے کا حکم دیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، اس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح میں نے تم لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچایا ہے، اسی طرح تم لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم لوگ نسل در نسل انسانوں میں خدا کے پیغام کو پہنچانے کا عمل جاری رکھنا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ خطبہ گویا ایک زندہ پکار ہے۔ وہی مسلمان حقیقی معنوں میں ایمان والا ہے جو حج کی اس پیغمبرانہ نصیحت کو سنے اور اس كي پوري زندگي اس حال ميں گزرے کہ یہ خطبہ اس کے لیے ایمان و تقویٰ اور انسانی خیرخواہی میں اضافہ کاذریعہ بن گیا ہو۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
(اس مضمون کی تیاری میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتاب حقیقت حج سے مدد لی گئی ہے)