ڈائری 1986
21مئی 1986
محمود عالم صاحب (مہاراشٹر) اپنے ایک دوست کے ساتھ ملنے کے لیے آئے، وہ کئی سال سے الرسالہ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے مشن سے اتفاق ہے۔ مجھے بتائیے کہ میں عملی طور پر اس کے لیے کیا کروں ؟
میں نے کہا کہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ الرسالہ کی ایجنسی قائم کریں۔ الرسالہ کی ایجنسی ہمارے یہاں بنیادی کام ہے۔ اس سے بقیہ کاموں کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میں فوراً الرسالہ کی ایجنسی شروع کر دوں گا۔ مگر یہ بتایئے کہ شاہ بانو بیگم جیسے مسائل کا حل آپ کے نزدیک کیا ہے؟
میں نے کہا کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے، نہ کہ کوئی قانونی مسئلہ۔ اس قسم کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں بگاڑ آ گیا ہے۔ لوگوں کے دل ضداور انتقام کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور جن لوگوں کا یہ حال ہو ان کے لیے کوئی قانون رکاوٹ نہیں بنتا۔وہ ایک طرف سے اپنا راستہ بند دیکھ کر دوسری طرف سے اپنے انتقامی جذبات کی کارروائی کے لیے راستہ پا لیتے ہیں۔
الرسالہ کے ذریعہ لوگوں کی ذہنی تعمیر کا کام کرتے ہوئے دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ ہر بستی میں اصلاحی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان وہ لوگ ہوں جو بستی میں معزز حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اصلاحی کمیٹی بستی کے مسلمانوں پر نظر رکھے اور جس شخص یا خاندان میں کوئی بگاڑ دیکھے فوراً وہاں پہنچ کر اس کو پرامن انداز میں حکمت کے ساتھ درست کرنے کی کوشش کرے۔ آپ اپنی بستی میں ایک اصلاحی کمیٹی بنا کر یہ کام شروع کر سکتے ہیں۔
اصلاحی کمیٹی کا کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے تقریباً وہی ہے جس کا ذکر سیرت کی کتابوں میں حلف الفضول کے نام سے آتا ہے۔ حلف الفضول اسی قسم کی ایک اصلاحی کمیٹی تھی جو مکہ کے لیے بنائی گئی تھی۔ اگرچہ یہ نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے،مگر اس کی اسلامی اہمیت اس طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ نبوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اس میں بلایا جائے تو میں ضرور اس میں شرکت کروں گا:لَوْ أُدْعَى بِهِ فِي الْإِسْلَامِ لَأَجَبْتُ۔ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 134)
محمود عالم صاحب نے اصلاحی کمیٹی کی تجویز سے صد فی صد اتفاق کیا اور کہا کہ واقعتاً یہی ہمارے مسئلے کا حل ہے۔
22مئی 1986
میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ پہلی بار اگست 1963 میں چھپی تھی۔جلد ہی اس کے تمام نسخے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد مسلسل اس کا تقاضا ہوتا رہا۔مگر میں اس کو دوبارہ چھپوا نہ سکا۔اب اپنے ساتھیوں کے اصرار پر دوبارہ اس کو کتابت کے لیے دے دیا۔ آج کاتب صاحب نے کتابت مکمل کر کے اس کے صفحات میرے حوالے کیے ہیں۔
کتاب دوبارہ کتابت ہو کر سامنے آئی تو ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔اس میں سے ایک صوفی نذیر احمد کاشمیری کا تبصرہ تھا۔ وہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں صفدر صاحب مرحوم کے ساتھ کام کرتے تھے۔ میری ملاقات ان سے انوار علی خاں سوز کے مکان پرہوئی۔ صوفی نذیر احمد کاشمیری نے کہا کہ آپ کی کتاب کے مباحث تو تقریباً درست ہیں۔ مگر اس کا نام غلط ہے۔اس کا نام ہونا چاہیے ’’ترتیب کی غلطی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مودودی صاحب کی اصل خطا یہ ہے کہ انہوں نے دین کے اجزا کی ترتیب کو غلط کر دیا ہے۔سیاست و حکومت بھی دین میں ضروری ہے، مگر اس کو صحیح ترتیب پر ہونا چاہیے۔
جو حضرات مولانا مودودی صاحب کے مخالف ہیں(مثلاً امین احسن اصلاحی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، ڈاکٹر اسرا راحمد )۔ ان سب کا کیس یہی ہے۔ وہ لوگ ممکن ہے کہ صد فی صد صوفی نذیراحمد والے الفاظ نہ بولیں، مگر عملاً سب کا ذہن وہی ہے جس کی نمائندگی ’’ ترتیب کی غلطی‘‘ کے فقرہ سے ہوتی ہے۔
میں ذاتی طور پر اس نظریہ کو غلط سمجھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرات اپنے آپ کو سیاست کے خول سے باہر نہ نکال سکے۔دوسری طرف مولانا مودودی کا فکر ان کو درست بھی نظر نہیں آتا۔ ان دو طرفہ تقاضوں کی تطبیق انہوں نے اس طرح کی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ مولانا مودودی کا فکر بذات خود غلط نہیں۔ البتہ انہوں نے اجزائے دین کی ترتیب کو غلط کر دیا۔ حالانکہ ’’ترتیب‘‘ ایک اضافی لفظ ہے۔تحریکوں میں کبھی جامد ترتیب نہیں ہوا کرتی۔
23مئی 1986
آج کے اخبار میں صفحہ اول پر ایک تصویر چھپی ہے۔(میرے سامنے اس وقت ہندستان ٹائمس 23مئی 1986ہے) ۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ گردوارہ بنگلہ صاحب(نئی دہلی) کے سامنے زائرین کے بہت سے جوتے اور چپل رکھے ہوئے ہیں اور پنجاب کے موجودہ چیف منسٹر مسڑ سرجیت سنگھ برنالا کپڑا لے کر جوتوں کی صفائی کر رہے ہیں۔ تصویر کے نیچے حسب ذیل الفاظ درج ہیں:
Punjab Chief Minister, Surjit Singh Barnala dusting shoes at the Bangla Sahib Gurdwara in New Delhi on Thursday (May 23, 1986) .
اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چیف منسٹر نے محض فارملٹی کے طور پر یہ کام نہیں کیا۔ جیسے ہمارے اکثر لیڈر درخت لگاتے ہیں، بلکہ انہوں نے پوری محنت اور سنجیدگی کے ساتھ جوتوں اور چپلوں کی صفائی کی۔ 30 منٹ میں انہوں نے تقریباً 100 زائرین کے جوتے صاف کیے۔
مسٹر برنالا پنجاب کے چیف منسٹر تھے۔ وہ اس کے لیے مجبور نہ تھے کہ اکال تخت کے فیصلہ کے مطابق عام آدمی کی طرح جوتوں کی صفائی کریں۔ مگر ردّ کرنے کا اختیار رکھتے ہوئے بھی انہوں نے اس فیصلے کو قبول کر لیا۔
اس معاملہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مسٹر برنالا نے اکال تخت کے فیصلہ کو قبول کر کے اپنی قوم کی مذہبی روایت کو بچا لیا۔ اگر وہ اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیتے، جب کہ اس طرح کے معاملات میں ہمارے دوسرے لیڈر کرتے ہیں، تو صدیوں سے قائم شدہ روایت ٹوٹ جاتی۔
موجودہ زمانہ میں 40 سے زیادہ اسلامی ملک ہیں، مگر کہیں بھی مسلمانوں میں ایسے لیڈر نہیں جو روایت کو قائم رکھنے کے لیے اس طرح اپنی ذات کی قربانی دے سکیں۔ہر مسلم لیڈر کا یہ حال ہے کہ جب بھی اس کی اپنی ذات زد میں آتی ہے وہ فوراً روایت کو توڑ دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلم ملک میں کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ ہر چیز اضافی بن کر رہ گئی ہے۔
24مئی 1986
آج حامد سروری حیدرآبادی(پیدائش 1941) ملنےکے لیے آئے۔ حیدرآباد کے فساد میں وہ سخت زخمی ہوئے تھے اور کئی مہینے کے علاج کے بعد دوبارہ صحت مند ہوئے۔اس فساد میں ان کی دکان بھی لٹ گئی۔ تاہم میں نے دیکھا کہ وہ منفی ذہن کے شکار نہیں ہوئے۔ اس تلخ تجربہ کے باوجود انہوں نے حقیقت پسندانہ طرز فکر کو نہیں کھویا۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ہندستان میں فسادات کا سبب پچاس فیصد مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر ہیں۔اگر مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر اتار دیے جائیں تو اس ملک کا آدھا فساد ختم ہو جائے۔ میں نے کہا کہ یہ بات میں ذاتی اپج کے تحت نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ حدیث کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔
امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک لمبی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کو آپ مشکوٰۃ المصابیح میں علامات قیامت کے باب میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔اس حدیث میں قرب قیامت سے پہلے کے بگاڑ کا ذکر ہے۔بگاڑ کی جو علامتیں حدیث میں بتائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:
وظهرَتِ الأصْواتُ في المَساجدِ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2358)۔
یعنی، اورمسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ میں اسی فتنہ کی پیشین گوئی کی گئی ہے جس کو موجودہ زمانہ میں لاؤڈ اسپیکر کہتے ہیں۔ چونکہ ہندستان میں ہندو مسلم آبادیاں ملی جلی ہیں، اس لیے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں ہندوؤں تک پہنچتی ہیں اور ان کو برابر مشتعل کرتی رہتی ہیں۔ وہ ہمارے خلاف مستقل ٹینشن میں رہتے ہیں اور جب موقع پاتے ہیں مارپیٹ شروع کر دیتے ہیں۔
حامد سروری صاحب نے کہا میں اپنے تجربہ کی روشنی میں تصدیق کرتا ہوں کہ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔حیدرآباد میں دھول پٹ کی مسجد میں ایسا ہی ہوا۔ وہاں ہم نے لاؤڈ اسپیکر لگایا۔ اور ہندوؤں کے اعتراض کے باوجود ہم نے لاؤڈ اسپیکر بند نہیں کیا ۔یہاں تک کہ چھ مہینے کے بعد فساد ہو گیا۔
25مئی 1986
سری لنکا کے شمالی حصے میں ایک بستی ہے جس کا نام ہے تیلی پلائی(Tellippalai)۔ یہاں دُرگا دیوی کا ایک مندر ہے۔پچھلے سال یہ واقعہ ہوا کہ اس مندر میں چوری ہوئی اور کئی لاکھ روپے کے زیورات چوری ہو گئے جو کہ دیوی جی پہنے ہوئے تھیں۔
چوری کے ایک سال بعد 24مئی 1986 کو یہ واقعہ ہوا کہ لوگوں نے دیکھا کہ مندر کے دروازہ پر ایک بڑا سا بیگ رکھا ہوا ہے۔اس بیگ کو کھولا گیا تو اس کے اندر وہ تمام زیورات موجود تھے جو ایک سال پہلے چوری کیے گئے تھے۔ زیوروں کا یہ بیگ فوراً مندر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے حوالے کر دیا گیا۔
اس چوری کے بعد عام طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کی ذمہ دار تامل ایلام لبریشن آرگنائزیشن (TELO) ہے۔ اس چوری کے بعد مذکورہ تنظیم کو زبردست نقصانات سے سابقہ پیش آیا۔ چنانچہ انہوں نے زیورات کو واپس کر دیا۔رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا، 25 مئی 1986، ص8) میں کہا گیا ہے:
The local people, who had accused the Tamil Eelam Liberation Organisation of the robbery, believe the group had now returned the jewellery because they felt that it was goddess Durga’s wrath over the theft of her ornaments that brought about their group’s near elimination in recent bloody clashes with the rival Liberation Tigers of Tamil Eelam (LTTE).
مذکورہ گروہ نے زیورات کو اس لیے واپس کر دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ درگا دیوی اس چوری کی وجہ سے ان پر غضبناک ہو گئیں اور ان کو اپنے حریف گروہ کے مقابلہ میں زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔
مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ان کا ایک آدمی ظلم کرتا ہے اور اس کے بعد خدا اس کو تنبیہی سزا میں مبتلا کر دیتا ہے، مگر وہ نہیں چونکتا۔ موجودہ زمانہ میں شاید مسلمانوں کا دل ان لوگوں سے بھی زیادہ سخت ہو گیا ہے، جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے ۔گويا ان کی اس حالت پر قرآن کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں— پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے۔ پس وہ پتھر کی مانند ہوگئے یا اس سے بھی زیادہ سخت (2:74)۔
26مئی 1986
ہندستان ٹائمس(26 جنوری 1986) میں صفحہ 9 پر ایک مضمون ہے جس کا عنوا ن ہے:
Benazir Bhutto and Rajiv Gandhi
اس مضمون کو لکھنے والے مسٹر بھابینی سین گپتا ہیں۔ مضمون ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
InshaAllah, if Benazir Bhutto becomes prime minister of Pakistan…
اس طرح اس مضمون میں ایک سے زیادہ بار ان شاء اللہ کا لفظ آیاہے۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔بہت سے غیر مسلم اپنی گفتگو اورتقریر میں ان شاء اللہ کا لفظ بولتے ہیں۔ اور اسی طرح دوسرے اسلامی الفاظ بھی۔
اسلام کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ اس نے ہر معاملہ میں ایسی چیزیں دی ہیں، جن کا کوئی بدل نہیں۔ اس طرح روز مرہ کی گفتگو میں بولنے کے لیے اسلام نے جو الفاظ دیے ہیں آج بھی اس سے بہتر الفاظ کسی دوسری تہذیب نے انسان کو نہیں دیے۔مثلاً ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا۔ کوئی خوشی کی بات ہو تو الحمد للہ کہنا۔ کسی کام کا ارادہ کرتے ہوئے ان شاء اللہ کہنا۔ کسی کا اچھا کام دیکھ کر ماشاء اللہ کہنا۔ کسی کا اعتراف کرنا ہو تو بارک اللہ کہنا ، وغیرہ۔
یہی ہر معاملہ میں ہے۔ مثلاً موت کے بعد اسلام میں جس طرح تجہیز و تکفین کی جاتی ہے، اس سے بہتر طریقہ کسی قوم میں موجود نہیں۔ اور نکاح کا طریقہ جو اسلام میں رکھا گیا ہے،اس سے بہتر طریقہ سوچا نہیں جا سکتا۔
اسلام کے طریقے نہایت سادہ ہیں اور اسی کے ساتھ نہایت بامعنی۔ مگر مسلمانوں نے اپنے تکلفات کے اضافہ سے اسلام کی کشش مجروح کر دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان اسلام کا پردہ بن گئے ہیں۔اسلام اور دوسری قوموں کے درمیان مسلمان حائل ہیں۔
27مئی 1986
آج کے اخبار (ٹائمس آف انڈیا،انڈین اکسپریس 27مئی 1986) میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی ہے:
A helicopter touched down today at La Sante prison in Paris, picked up a prisoner from the rooftop of the jail and then (took) him out in a daring daylight escape. The escapee was identified as Michel Vaujour, 34, who was convicted on March 8, 1985, for armed robbery.
پیرس کی جیل میں ایک 34 سالہ شخص قید تھا۔مسلح قزاقی کے جرم میں 8 مارچ 1985 کو اسے 18 سال کی سزا ہوئی تھی۔26 مئی 1986 کو ساڑھے دس بجے دن میں ایک ہیلی کاپٹراُڑتا ہوا جیل کی فضا میں آیا۔وہ اس کی ایک چھت پر اترا اور مذکورہ قیدی کو لے کر اڑ گیا۔یہ پوری کارروائی صرف 5 منٹ کے اندر مکمل ہو گئی۔مفرور قیدی کا نام مائیکل واجور بتایا گیا ہے۔
مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی شخص اسی طرح ہیلی کاپٹر کرایہ پر لے سکتا ہے، جس طرح ہندستان میں کار کرایہ پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ایک 30 سالہ عورت نے ایک تجارتی ادارہ ایئر کانٹننٹ (Air Continent) سے ایک ہیلی کاپٹر کرایہ پر لیا۔وہ خود اس کو اڑاتی ہوئی جیل کے اوپر پہنچی اور طے شدہ پروگرام کے مطابق قیدی کو لے کر فرار ہو گئی۔
موجودہ دنیا میں کامیابی کا ایک خاص راز یہ ہے کہ بالکل اچانک ایسا اقدام کیا جائے جس کے متعلق فریق ثانی فوری طور پر کچھ نہ سوچ سکے۔وہ صرف اس وقت بیدار ہو جب کہ کارروائی کامیابی کی حد تک مکمل ہو چکی ہو۔
28مئی 1986
پیٹر بننسن (Peter Benenson, b. 1921) نے بڑے جذباتی انداز میں 25 سال پہلے ایک مضمون لکھا تھا جو لندن کے اخبار آبزرور(The Observer)میں28 مئی 1961 کو چھپا تھا۔اس کا عنوان یہ تھا:
The Forgotten Prisoners
مضمون سیاسی قیدیوں(political prisoners) کے بارے میں تھا۔ اس میں کہاگیا تھا کہ بے شمار لوگ ساری دنیا میں محض اپنے مختلف عقیدے یا نظریےکی بنا پر سخت سزائیں پا رہے ہیں:
Open your newspaper - any day of the week - and you will find a report from somewhere in the world of someone being imprisoned, tortured or executed because his opinions or religion are unacceptable to his government.
انہوں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا اور کہا کہ نظریہ اور عقیدہ یا اس کے پرچار پر کسی قسم کی بھی پابندی نہیں ہونی چاہیے، الّایہ کہ آدمی تشدّد کا طریقہ اختیار کرے۔اس مضمون کی تائید میں دوسرے لوگوں نے بھی مضامین شائع کیے اور بالآخر وہ ادارہ وجود میں آیا جس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل (Amnesty International) کہا جاتا ہے۔ اس وقت 150 ملکوں میں اس کے نصف ملین ممبر ہیں۔اس کا صدر دفتر لندن میں ہے۔
مگر ایمنسٹی انٹر نیشنل اس بات کی مثال ہے کہ انسان حدود کو نہیں مانتا۔وہ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھ سکتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سیاسی قیدیوں کو عذاب دینے کے خلاف جو آواز بلند کی ہے وہ نہایت درست ہے۔ اس کے صحیح ہونے میں کلام نہیں۔مگر ’’انسانی حقوق‘‘ (human rights) کے تحفظ کا تصور اس کو یہاں تک لے گیا کہ وہ اخلاقی جرائم میں بھی پھانسی کی سزا کے خلاف ہو گیا۔ اس لیے کہ وہ انسانی عظمت(human dignity) کے خلاف ہے۔وہ غیر انسانی اور ناقابل واپسی سزا ہے:
Inhuman and irrevocable punishment
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ ہے کہ death penaltyمکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔
یہ دوسرا مطالبہ بلا شبہ غلط ہے۔ سیاسی جرم اور اخلاقی جرم میں لازماً فرق کیا جانا چاہیے۔ پھر یہ کہ بعض اخلاقی جرم ایسے ہیں جن کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مجرم کو ایسی سزا دی جائے جو لوگوں میں دہشت (deterrence)پیدا کرے۔جو دوسروں کے لیے عبرت ناک ہو جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پرشدید اخلاقی جرائم کے لیے موت کی سزا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرے کمتر جرائم کے لیے موت کی سزا نہ ہونا۔(ٹائمس آف انڈیا، 28مئی 1986)
29مئی 1986
’’الامۃ‘‘ قطر کا عربی ماہنامہ ہے۔ اس کی اشاعت مئی 1986 میں دکتور احمد کمال ابوالمجد کا ایک مضمون (صفحہ 65) چھپا ہے۔ دکتور موصوف عرب کے مشہور اہل قلم میں سے ہیں۔
مذکورہ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگلے سالوں میں ہمارا مسئلہ تقدم اور تخلف کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ امت عربیہ کی نسبت سے یہ وجود اور زوال کا مسئلہ ہے۔امت عربیہ کو اس کی جڑ میں خطرہ درپیش ہے۔ اگر یہ معاملہ اسی طرح جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ عرب اور مسلمان ایک قسم کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ کیوں کہ انسانی تہذیب کے بنانے میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔جدید انسانی تاریخ میں ان کے لیے عزت اور سرداری کا کوئی مقام باقی نہیں رہے گا۔
اس كے بالمقابل’’الرعد‘‘ ریاض سے نکلنے والا ہفت روزہ ہے، اس کی اشاعت 5 مئی 1986 میں صفحہ 11 پر ایک مضمون ہے، جس کا عنوان ہے:
الاسلام ینتشر و ینتصر
یعنی، اسلام پھیلتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے۔اس دوسرے مضمون کے رائٹر دکتور عبد القادر طاش ہیں۔انہوں نے دکھایا ہے کہ موجودہ زمانہ میں دوسرے مذاہب کے افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے اور اہل اسلام کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔
ایک ہی وقت میں دو عرب مضمون نگار موجودہ زمانہ میں اسلام کی الگ الگ تصویریں پیش کر رہے ہیں۔ایک اسلام کو پیچھے جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرے کو اسلام آگے جاتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس فرق کی وجہ زاویۂ نظر کا فرق ہے۔ اول الذکر نے اسلام کو تہذیب کی نسبت سےدیکھا اور دوسرے نے دعوت کی نسبت سے۔تہذیب کی نسبت سے آج یقیناً اہلِ اسلام پیچھے ہیں۔مگر عین اسی وقت دعوت کے اعتبار سے لوگوں کے دل مسخر ہورہے ہیں اور اسلام برابر بڑھتا جا رہا ہے۔
’’تہذیب‘‘ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام پیچھے جا رہا ہے۔ اور ’’دعوت‘‘ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام آگے جا رہا ہے۔ پھر کیوں نہ اسی میدان میں اپنی کوششوں کو وقف کر دیا جائے جس میں آج بھی اسلام کی پیش قدمی کے لیے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
30 مئی 1986
سیمون ڈی بوئر(1908(Simone de Beauvoirء میں پیرس میں پیدا ہوئی۔1986 میں 78 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ یورپ کی آزادیِ نسواں کی حامی خواتین میں اس کا نام سرِفہرست آتا ہے۔
وہ شادی کے طریقہ کی سخت خلاف تھی۔ اس کے نزدیک شادی کا طریقہ عورت کو دوسرے درجہ کا انسان بنانے کے ہم معنٰی ہے۔اس نے اعلان کے ساتھ کئی مردوں کے ساتھ زندگی گزاری اور اس نے کبھی نکاح نہیں کیا اور نہ بچے پیدا کیے۔آزادیِ نسواں کے بارے میں اس کی مشہور کتاب فرانسیسی زبان میں 1949 میں چھپی تھی۔اس کتاب کا انگریزی ترجمہ The Second Sex کے نا م سے 1953 میں شائع ہوا۔
سیمون ڈی بوئر نے اپنی خودنوشت سوانح عمری بھی شائع کی ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہے کہ اس کے عیسائی پس منظر نے اس کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا تھا۔عورت ہونا اس کو کمتر درجہ کی بات لگتا تھا۔لیکن اس نے پسند نہیں کیا کہ وہ عورت یا بیوی بن کر رہے:
Her Christian background had imposed upon her an inferiority complex about being a woman. But she did not want to be a woman or a wife.
ایک حد تک یہ بات کہنا صحیح ہوگا کہ یورپ میں آزادی ِ نسواں کی تحریک عیسائیت کے ردعمل میں شروع ہوئی۔عیسائی عقیدہ عورت کو انسان کی گناہ گاری کا سبب بتاتا ہے۔اس بنا پر عیسائیت میں عورت کی تصویر ایک حد تک قابل نفرت بن کر رہ گئی ہے۔اسی کے ردِّ عمل میں آزادی ِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی۔ مگر وہ ایک حد سے دوسری حد پر جا پہنچی۔ ایک برائی کو ختم کرنے کے نام پر اس نے دوسری برائی پیدا کر دی۔
31 مئی 1986
سید مجاہد حسین (بیٹر، مہاراشٹر) ملنے کے لیے آئے۔ وہ انجینئر ہیں اور دینی جذبہ کے تحت آج کل عربی پڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 4 سال سے الرسالہ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے فکر سے اتفاق ہے۔ البتہ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔اور وہ ذکر کے بارے میں ہے۔ آپ اکثر الرسالہ میں لکھتے ہیں کہ ذکر ایک معنوی حقیقت ہے، نہ کہ محض لفظی تکرار۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس بات کو مانتا ہوں، مگر صوفیا کا کہنا ہے کہ بار بار الفاظ کی تکرار سے آدمی کے اندر اس کی روح بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا یہ درست نہیں؟
میں نے کہا کہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فقہ کی عبارتوں کو رٹ کر دہراؤ تو اس سے تمہارے اندر تفقہ پیدا ہو جائےگا۔
مثال کے طور پر الموافقات علامہ شاطبی کی مشہور کتا ب ہے۔ وہ اصول فقہ پر ہے۔اگر اس پر قرآن مجید کی طرح اعراب لگا دیا جائے، یعنی ہر حرف اور ہر لفظ پر زیر،زبر ،پیش وغیرہ علامتیں لگی ہوئی ہوں تو کوئی بھی اردو داں اس کو پڑھ سکتا ہے۔ اب بتائیے کہ ایک شخص جو معانی کی فہم نہ رکھتا ہو اور الموافقات پر اعراب لگا کر اس کو روزانہ دہراتا ہے تو کیا وہ فقیہ بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ لفظی ذکر سے معنوی ذکر والی کیفیتیں آدمی کے اندر پیدا ہوں۔
ذکر حقیقتاً معرفتِ خداوندی کے زیرِ اثر نکلے ہوئے الفاظ کا نام ہے،نہ کہ محض زبان سے کی جانے والی بے روح لفظی تکرار۔
1جون 1986
ٹائمس آف انڈیا (29 مئی 1986) کے صفحہ 3 پر ایک اشتہار نظر سے گزرا۔ ایک ہندو نوجوان اپنے گھر سے بھاگ گیا۔ اس کے باپ نے با تصویر اشتہار شائع کیا ہے کہ اس شکل کا بچہ گھر سے بھاگ گیا ہے، جن صاحب کو ملے وہ اسے ہمارے غازی آباد کے پتہ پر پہنچا دیں۔
لڑکے کا نام دنیش ہے اور اس کے باپ کا نام راجندر کمار ہے۔ اشتہار ہندی رسم الخط میں چھپا ہے۔مگر اس کی بناوٹ تقریباً اردو ہے۔ اشتہار کے الفاظ یہ ہیں:
گم شدہ کی تلاش (Xkqe'kqnk dh ryk'k)
پریہ دنیش! تم جہاں بھی ہو شيگھر هي گھر چلے آؤ۔گھر پر سبھی بے حد پریشان ہیں۔ تمہاری ممی کی حالت چنتا جنک ہے۔
مسلمان عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہندستان سے اردو ختم کی جا رہی ہے۔ مگر یہ بات صرف جزئی طور پر صحیح ہے۔ اس کی ایک مثال اوپر کا اشتہار ہے۔
یہ صحیح ہے کہ نئے ہندستان میں اردو رسم الخط کا استعمال کم ہو رہاہے، مگر جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، وہ بدستور بڑی حد تک زندہ ہے۔ نہ صرف فلم اور ٹیلی ویژن میں بلکہ ہندی اخبارات میں ایک حد تک وہی زبان ہوتی ہے جس کو ہم اردو زبان کہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس زبان کو اردو رسم الخط میں لکھتے ہیں اور برادران وطن اس کو ہندی رسم الخط میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بولنے اور سمجھنے کی حد تک اردو زبان ہندستان میں پوری طرح باقی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو ہندی رسم الخط میں چھاپ کر کثیر تعداد میں پھیلائيں۔سادہ اردو زبان ہر ہندو سمجھ سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہندی رسم الخط میں لکھی گئی ہو۔
2جون 1986
استاد بند و خاں(1880-1955) مشہور فنکار تھے۔ ان کا کام سارنگی بجانا تھا۔ اس فن میں انہوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔تقسیم ہند سے پہلے کا واقعہ ہے۔ ایک بار استاد بندو خاں کو بتایا گیا کہ محمد علی جناح پر کسی شخص نے قاتلانہ حملہ کیاہے۔ انہوں نے یہ خبر سن کر کہا :
کیا کرتے ہیں وہ، گاتے ہیں کہ بجاتے ہیں۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر آر این ورما لکھتے ہیں:
It certainly showed Bundu Khan’s total devotion to music. His unconcern for anything else was so complete that he did not even know who Jinnah was.
یہ یقینی طور پر بتاتا ہے کہ بندو خان نے اپنے آپ کو میوزک کے لیے بالکل وقف کر دیا تھا۔دوسری چیزوں میں ان کی بے تعلقی اتنی مکمل تھی کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جناح کون ہیں۔(ہندستان ٹائمس، 31مئی 1986)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز میں کمال پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہوتی ہے۔وہ ہے اپنے آپ کو اس کے لیے وقف کر دینا۔ کسی فن یا کسی کام میں امتیاز کا درجہ حاصل کرنے کے لیے یہ واحد لازمی شرط ہے۔اس کے بغیر کوئی شخص امتیاز کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔
آدمی جب کسی چیز میں اتنا گم ہو جائے کہ اس کے سوا ہر چیز اس کی نظر سے اوجھل ہو جائے، اسی وقت اس کو اس چیز میں کمال کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
3جون 1986
آنکھ انسانی جسم کا بے حد نازک حصہ ہوتا ہے۔اس کا آپریشن بہت زیادہ نازک کام ہے۔آنکھ کے بعض آپریشن ایسے تھے جو موجودہ روایتی آلات کے ذریعہ نہیں کیے جا سکتے تھے۔
اس سلسلے میں روس کے ڈاکٹر فیوڈوروف(Svyatoslav Fyodorov) پچھلے دس سال سے تحقیق کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک ریاضیاتی ماڈل (mathematical model) بنایا، کمپیوٹر کی تکنیک سے مدد لی۔آخر کار انہوں نے ایک نئی بے حد تیز چھری (super sharp knife) تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔یہ چھری اسٹیل کے بجائے ہیرے سے تیار کی جاتی ہے اوريه موجودہ سرجری چھریوں سے سو گنا زیادہ تیز ہے۔
Super thin diamond knife, is one hundred times sharper than the edge of an ordinary razor blade.
قدیم زمانے میں غالباً دھار دار ہتھیار کے طور پر آدمی کے پاس جو چیز ہوتی تھی وہ نوکیلا پتھر تھا۔ اس کے بعد لوہے کے دھار دار اوزار بننے لگے۔ پھر اس کے بعد اسٹیل کا زمانہ آیا۔ اور ریزربلیڈ جیسی چیز کا بنانا ممکن ہو گیا۔
مگر انسان کی ضرورتیں اس سے بھی زیادہ تیز اوزار کی طالب تھیں۔اللہ تعالیٰ کو انسان کی اس ضرورت کی خبر تھی۔ اس نے پہلے ہی ہیرا پیدا کر دیا۔ ہیرا اگرچہ محض کاربن کا مجموعہ ہے، لیکن اس کے اندر غیر معمولی حد تک سختی رکھی گئی ہے۔یہ صرف ہیرے کے لیے ممکن ہے کہ اس کی دھار کو ریزر سے سو گنا زیادہ تیز کیا جا سکے۔