مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر 125-145)
125
براء بن عازب رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب قبر ميں اہل ایمان سے سوال كيا جاتاهے تو وه گواهي ديتاهے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں۔ يهي مطلب هے قرآن كے اس بیان كا كه ’’الله ايمان والوں كو ايك پكي بات سے دنيا اور آخرت ميں مضبوط كرتاهے‘‘ (14:27)۔ايك اور روايت كے مطابق نبي صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه يه آيت عذاب قبر كے باب ميں نازل هوئي۔ اس سے كها جائے گا كه تمهارا رب كون هے تو وه كهے گا كه ميرا رب الله هے اور ميرے نبي محمد هيں ۔(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر1369؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر73)
تشریح:آدمي جب مرتاهے تو وه اپنے جسماني وجود كو اسي دنيا ميں چھوڑ ديتا هے،صرف اپنے روحاني وجود كے ساتھ اگلي دنيا ميں داخل هوتاهے۔ جهاں اس كو ايك نيا اور بهتر جسم عطا كيا جائے۔ جس آدمي نے اپنے روحاني وجود كو قولِ ثابت یعنی شک اور کنفیوزن سے خالی ايمان پر مضبوط كياهو،وه اس بات کا مستحق ہوگا کہ اللہ اس کو اگلي دنيا ميں اپنی خصوصی رحمت سے ثابت قدمی عطا فرمائے تاکہ وہ فرشتوں كے هر سوال كا درست جواب دےسكے۔
126
انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه نبي صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: بنده جب قبر كے اندر ركھ ديا جاتاهے اور اس كے ساتھ آنے والے لوگ واپس جانے لگتے هيں تو وه ان كے جوتوں كي آواز كو سنتا هے۔ پھر اس كے پاس دو فرشتے آتے هيں اور اس كو بٹھاديتے هيں اور پھر اس سے پوچھتے هيں كه تم اس شخص (محمد) كے بارے ميں كیا كهتے تھے۔ پس جو مومن هے وه كهے گا كه ميں گواهي ديتا هوں كه وه الله كے بندے اور اس كے رسول هيں۔ پھر اس سے كهاجائے گا كه تم ديكھو، وه دوزخ ميں تمهارا ٹھكانا تھا۔ اس كو بدل كرالله نے تمھارا يه ٹھكانا جنت ميں كرديا هے۔ چنانچه وه بنده ان دونوں ٹھكانوں كو ايك ساتھ ديكھتا هے۔ اور جب منافق اوركافر سے كها جائے گا كه تم اس شخص (محمد) كے بارے ميں كيا كهتےتھے۔ تو وه كهے گا كه ميں نهيں جانتا۔ ميں وهي كهتا تھا جس كو لوگ كهتے تھے۔ اس سے كهاجائے گا كه نه تم نے جانانه تم نے پڑھا۔ پھر اس كو لوهے كے هتھوڑوں سے مارا جاتا هے۔ چنانچہ وه ايسي آواز سے چيختا هے جس كو انسان اور جنات كے سوا سب سنتے هيں۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر1338؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2870)
تشریح:ميں نهيں جانتا، ميں تو وهي كهتا تھا جو لوگ كهتے تھے (لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ) —يه الفاظ بتاتےهيں كه اهلِ نفاق اور اهلِ كفر كا دين وهي هوتا هے جو عوام كا دين هو۔ ايسے لوگوں كا كنسرن (concern) يه نهيںهوتا كه وه حق كو جانيں اور اس كو اختيار كريں۔ ان كا سارا كنسرن يه هوتاہے كه وه لوگوں كے درميان باعزت اور كامياب هوں۔ اس لیے وه دين كے نام پر ان چيزوں كو اختيار كرتے هيں جو عوام كے اندر دين كے نام پر رائج هوں۔ چنانچه وه اپنے آپ كو عوام كي پسند پر ڈھال ليتے هيں۔
اس كے برعكس، مومن كا كنسرن (concern) حق کی تلاش ہوتی هے۔ وه الله كي توفيق سے دين كي براهِ راست معرفت حاصل كرتا هے۔ اور اس كے مطابق اپني زندگي كي تعمير وتشكيل كرتاهے۔ يهي لوگ هيں جو خدا كے يهاں عزت پائيں گے، خواه دنيا والوں نے ان كو بے عزت سمجھ ليا هو۔
127
عبدالله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:تم ميں سے كوئي شخص جب مرتا هےتو اس كو صبح اور شام اس كا ٹھكانا دكھايا جاتا هے۔ اگر وه جنتي هوتاهے تو جنتيوں کا ٹھكانا، اور اگر وه دوزخي هوتا هے تو دوزخيوں کا ٹھكانا۔ پھر كها جاتا هے كه يه هے تمھارا ٹھكانا۔ يهاں تك كه قيامت كے دن تم كو اٹھا كر وهاں پهنچا ديا جائے۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر 1379؛ صحیح مسلم،حدیث نمبر 2886)
تشریح:اس حديث ميں موت كے بعد كي جس كيفيت كا ذكر هے اس كو انتظار كي حالت سے تعبير كيا جا سكتا هے۔ مجرم كے لیے سزا سے پهلے انتظار كا لمحه ايك قسم كي سزا هے۔ اس کو قرآن (2:167) میں حسرت (regret)سے تعبیر کیا گیا ہے۔یعنی اس بات کا شدید احساس کہ آہ کیسا قیمتی موقع تھا، جو اس نے غفلت میں کھودیا۔ اسي طرح الله كے نیک بندوں كے لیے جنت میں داخله سے پهلے انتظار كا لمحه ايك قسم كا انعام ہے۔
128
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه ان كےپاس ايك يهودي عورت آئي۔ اس نے قبر كے عذاب كا ذكر كيا۔ پھر اس نے ان سے كها كه الله تم كو قبر كے عذاب سے بچائے۔ پھر عائشه نے رسول الله صلي الله عليه وسلم سے عذاب قبر كے بارے ميں سوال كيا۔ آپ نے فرمايا كه هاں، قبر كا عذاب برحق هے۔ عائشه كهتي هيں كه اس كے بعد ميں نے ديكھا كه جب بھي رسول الله صلي الله عليه وسلم نماز پڑھتے تو آپ ضرور قبر كے عذاب سے الله كی پناه مانگتے۔ (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر586)
تشریح:قبر كے عذاب سے مراد موت كے بعد كا عذاب هے، نه كه مقامي معنوں ميں زمين كے اس گڑھے كا عذاب جهاں آدمي كو دفن كياگيا هے۔
129
زيد بن ثابت رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم اپنے خچر پر سوار هو كر بنو نجار كے باغ سے گزر رهے تھے۔ هم آپ كے ساتھ تھے كه اچانك آپ كاخچر بدك گيا۔ اور اس طرح بد كا كه جيسے آپ كو گرا دے گا۔ اس وقت وهاں پانچ يا چھ قبريںنظر آئيں۔ آپ نے پوچھا كه ان قبروں كو كوئي جانتا هے۔ ايك صاحب نے كها كه هاں، ميں جانتا هوں۔ آپ نے كها كه ان كي موت كب هوئي۔ انھوں نے كها كه شرك كي حالت ميں۔ آپ نے كها كه يه لوگ اپني قبروں ميں آزمائے جارهے هيں۔ اگر مجھ كو يه انديشه نه هوتا كه تم لوگ دفن كرنا چھوڑ دو گے تو ميں الله سے دعا كرتا كه وه آوازيں تم كو سنادے جو مجھے سنائي دے رهي هيں۔ اس كے بعد آپ نے اپنا رخ هماري طرف كركے فرمايا: آگ كے عذاب سے الله كي پناه مانگو۔ صحابه نے كها كه هم آگ كے عذاب سے الله كي پناه مانگتے هيں۔ پھر آپ نے فرمايا كه كھلے هوئے فتنوں سے اور چھپے هوئے فتنوں سے الله كي پناه مانگو۔ صحابه نے كها هم هر ظاهري اور باطني فتنه سے الله كي پناه مانگتے هيں۔ پھر آپ نے فرمايا كه دجال كے فتنه سےالله كي پناه مانگو۔ صحابه نے كها كه هم دجال كے فتنه سے الله كي پناه مانگتے هيں۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر2867)
تشریح:يه ايك غيبي تجربه هے جو الله نے ايك مخصوص وقت پر اس لیے كرايا تاكه وه اهلِ ايمان كے لیے نصيحت هو۔ اور وه موت سے پهلے كي زندگي ميں موت كے بعد كي زندگي كے لیے تياري ميں زياده سے زياده اهتمام كريں۔
فتنوں سے پناہ مانگنا کس انسان کے لیے فائدہ مند ہے۔یہ اس انسان کے لیے فائدہ مند ہے جو اپنے اندر سیلف کریکشن کے عمل کو جاری کرے۔ سیلف کریکشن (self-correction) کا کام کوئی دوسراشخص نہیں کرسکتا۔ یہ کام ہر آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا پہلا فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر غیر ربانی آئٹم کو نکالے جو پیدائشی طور پر اس کے اندر موجود نہ تھے، لیکن بعد کو وہ ماحول کے اثر سے اس کی شخصیت کا حصہ بن گئے۔ جب کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے گا تو اس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوگا کہ آدمی کی فطری شخصیت پاک ہوکر سامنے آجائے۔ دنیا کے فتنہ سے پاک شخصیت کا دوسرا نام مزکّٰی شخصیت ہے۔
130
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه مرده جب قبر ميں ركھ دياجاتا هے تو اس كے پاس سياه اور نيلي آنكھوں والے دو فرشتےآتے هيں جن ميں سے ايك كو منكر كها جاتا هے اور دوسرے كو نكير۔ پھر دونوں فرشتے سوال كرتے هيں كه تم اس شخص كے بارے ميں كيا كهتے تھے۔ پھر مرده اگر مومن هوتا هے تو جواب ديتاهے كه وه الله كے بندے اور اس كے رسول هيں۔ ميں اس بات كي گواهي ديتاهوں كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے بندے اور اس كے رسول هيں۔ فرشتے كهتے هيں كه هم جانتے تھے كه تم يهي كهوگے۔ اس كے بعد اس كي قبر لمبائي اور چوڑائي ميں ستر ستر گز كشاده كردي جاتي هے۔ اور اس كے اندر روشني كردي جاتي هے۔ پھر اس سے كها جاتا هے كه سو جاؤ۔ وه كهتا هے كه ميں واپس جاكر گھر والوں كو اس كي اطلاع دے آؤں۔ وه كهتےهيں كه تم اس دولہا كي طرح سو جاؤ جس كو اس كے متعلقين ميں سے وهي جگاتا هے جو اس كو سب سے زياده محبوب هے، يهاں تك كه الله اس كواس كي خواب گاه سے اٹھائے۔ اور مرده اگر منافق هوتاهے تو وه اس طرح جواب ديتاهے كه اس شخص كے بارے ميں جو بات دوسرے لوگوں كو كهتے هوئے ميں سنا كرتا تھا وهي ميں كهہ ديا كرتا تھا، ميںاور كچھ نهيں جانتا۔ فرشتے كهتے هيں كه هم جانتے تھے كه تم يهي كهوگے۔ اس كے بعد زمين كو حكم دياجاتا هے كه اس مرده كے اوپر دونوں طرف سے مل جا۔ چنانچه زمين اس كے اوپر اس طرح مل جاتي هے كه اس كي دائيں پسلياں اور بائيں ايك دوسرے كے اندر گھس جاتي هيں اور اس كو اسي طرح برابر عذاب ديا جاتا هے يهاں تك كه الله اسے اس جگه سے اٹھائے۔(سنن الترمذي، حدیث نمبر1071)
تشریح: اس حديث ميں موت كے بعد پيش آنے والے معامله كو تمثيل كي زبان (symbolic language) ميں بيان كيا گياهے۔ اس قسم كي حديثوں كو سمجھنے كے لیے تمثیلی اسلوبِ بيان كے معامله كو سامنے ركھنا بهت ضروري هے۔
منافق كا جواب كه دوسروں كو جو كچھ كهتےهوئے سنا وهي ميں نے كهه ديا (سَمِعت النَّاس يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ)، منافق كي نفسيات كو بتاتا هے۔ مومن كے دين كا سرچشمه حق كي معرفت هوتاهے۔ اس كے برعكس، منافق كا معامله يه هوتا هے كه دوسروں كو وه جس طريقه پر چلتے هوئے ديكھتا هے اسي كو وه بھي اختيار كرليتاهے۔ مومن كے سامنے خدا كي رضا هوتي هے اور منافق كے سامنے عوام كي رضا۔ عوام پسند بولی بولنے والے لوگ بہت جلد عوام میں مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں، مگر آخرت کے اعتبار سے، یہ صرف ہلاکت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔دنياوي اسٹيج پر عوام پسند بولی بولنے والے لوگ بہت جلدعوام ميں ممتاز مقام حاصل کرلیتے ہیں، لیکن آخرت کے ربانی اسٹیج پر یقیناً اُن کوکوئی جگہ ملنے والی نہیں۔
131
براء بن عازب رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: موت كے بعد آدمي كے پاس دو فرشتے آتے هيں۔وه اس كو بيٹھا كر اس سے كهتے هيں كه تمھارا رب كون هے۔ وه كهتاهے، ميرا رب الله هے۔ پھر وه فرشتے پوچھتے هيں كه بتاؤ تمھارا دين كيا هے۔ وه كهتا هے، ميرا دين اسلام هے۔ پھر فرشتے سوا ل كرتےهيں، بتاؤ يه كون هے جس كو تمھارے درميان بھيجا گيا تھا۔وه كهتا هے كه يه الله كے رسول هيں۔ فرشتے پوچھتے هيں يه بات تم كو كس نے بتائي۔ وه كهتا هے كه ميں نے الله كي كتاب پڑھي تو ميں اس پر ايمان لايا اور اس كی تصدیق کی ۔ يهي مطلب هے قرآن كے اس ارشاد كا: ’’اللہ ایمان والوں کو ایک پکی بات سے دنیا اور آخرت میں مضبوط کرتا ہے۔‘‘ (14:27) پھر آپ نے فرمايا كه ايك پكارنے والا آسمان سےپكارتا هےكه ميرے بندے نے سچ كها۔ پس تم اس كے لیے جنت كا بستر بچھا دو۔ اس كو جنت كا لباس پهنا دو اور اس كے لیے جنت كي طرف ايك دروازه كھول دو۔ چنانچه اس كے لیے جنت كي طرف كا دروازه كھول ديا جاتا هے۔ اور آپ نے فرمايا: پھر اس كي طرف جنت كي هوائيں اور جنت كي خوشبوئيں آتي هيں اور اس ميں اس كي نظر پہنچنےتك كشادگي كردي جاتي هے۔ اس کے بعد آپ نے كافر كے مرنے كا ذكر كيا اور فرمايا كه اس كے جسم ميں اس كي روح لوٹائي جاتي هے اور دو فرشتے اس كے پاس آكر اس كو بيٹھاتے هيں اور سوال كرتےهيں كه بتاؤ تمهارا رب كون هے۔ وه كهتا هے كه هائے، ميں نهيں جانتا۔ پھر فرشتے پوچھتے هيں۔ بتاؤ تمھارا دين كيا هے۔ وه كهتا هے كه هائے، ميں نهيں جانتا۔ تب ايك پكارنے والا آسمان سے پكارتا هے كه اس نے جھوٹ كها۔ تم اس كے لیے آگ كا بستر بچھا دو، اس كو آگ كا لباس پهنا دو، اور اس كے لیے دوزخ كي طرف ايك دروازه كھول دو۔ پھر اس كے لیے دوزخ كي طرف ايك دروازه كھول ديا جاتا هے جس سے اس كي طرف دوزخ كي گرم اور بدبودار هوائيں آتي رهتي هيں۔ آپ نے فرمايا كه پھر اس پر اس كي قبر تنگ كردي جاتي هے يهاں تك كه اس كي پسلياں ايك دوسرے ميں گھس جاتي هيں اور پھر اس پر ايك اندھا اور بهرا فرشته مسلّط كرديا جاتا هے جس كے پاس لوهے كا گرز هوتاهے كه اگر اس كو پهاڑ پر مارا جائے تو پهاڑ مٹي هوجائے۔ وه فرشته اس گرز سے اس كو اس طرح مارتاهے كه اس مار كي آواز مشرق ومغرب كے درميان جن وانس كے سوا هر چيز سنتي هے، وه مٹي كے ڈھير ميں تبديل هوجاتا هے اور اس كي روح پھر اس كے جسم ميں لوٹائي جاتي هے۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر، 18534؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4753)
تشریح:اس حديث میں آخرت كے ايك نامعلوم واقعه كو دنيا كي معلوم زبان ميں بيان كيا گيا هے۔ اس كا مطلب يه هے كه موت كے بعد آخرت كي دنيا ميں آدمي كے ساتھ جو معامله پيش آئے گا وه گويا كه ويسا هي ايك معامله هوگا جيسے كسي كے ساتھ موجوده دنيا ميں مذكوره قسم كے معامله كا پيش آنا۔ حديث كي يه بات متشابهات كي زبان ميں بيان هوئي هے، نه كه محكمات كي زبان ميں۔
حديث میں هے كه سوال وجواب كے وقت مومن كهے گا كه ميں نے خدا كي كتاب پڑھي اور اس پر ايمان لايا اور اس كي تصديق كي (قَرَأْتُ كِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ)۔ اس كے برعكس، غيرمومن كا جواب هوگا كه ميں نهيں جانتا (لَا أَدْرِي)۔ايك اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں ’’دوسروں كو جو كچھ كهتےهوئے سنا وهي ميں نے بھی كها(اوراس کو اختیار کیا)‘‘۔ سنن الترمذي ،حدیث نمبر 1071 ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک وہی دین کار آمد ہے جوبراہِ راست طور پر قرآن کے مطالعہ سے اخذ کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں وہ دین ریجکٹ ہوجائےگا جو سماجی رواج پر مبنی ہو۔ یعنی حقیقی مومن وہ ہے، جس کا دين حق کی شعوری دریافت پر مبني هو۔ اورغير مومن كا معامله يه هوتا هے كه لوگوں ميں جس چيز كا رواج هو اسي كو وه اپنا دين بنالیتے ہیں ۔
132
عثمان بن عفان رضي الله عنه جب كسي قبر پر كھڑے هوتے تو وه رونے لگتے، يهاں تك كه ان كي داڑھي تر هوجاتي۔ان سے كها گيا كه آپ جنت اور دوزخ كا ذكر كرتے هيں مگر اس پر نهيں روتے۔ اور يهاں رورهے هيں۔ انھوں نے كها كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه قبر آخرت كي منزلوں ميں سے پهلي منزل ہے ۔ پس جو اس سے بچ گيا، تو اس كے بعد كي منزل اس كے لیے بهت آسان هوگي۔ اور اگر وه اس سے نهيں بچا تو بعد كي منزل اس كے لیے بهت سخت هوگي۔ وه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه ميں نے قبر سے زياده سخت اور زياده وحشت ناك منظر كوئي اور نهيں ديكھا۔ (سنن الترمذي، حدیث نمبر2308؛ سنن ابن ماجه، حدیث نمبر4267)
تشریح:اس حديث كا تعلق قبر كي حقيقت بيان كرنے سے زياده اس بات پر هے كه كسي قبر كو ديكھ كر ايك مومن كے اوپر كس قسم كا تاثر قائم هونا چاهیے۔اصل حقيقت كے اعتبار سے يه مومن كي اپني كيفيات كا بيان هے، نه كه قبر كے احوال سے۔
133
عثمان بن عفان رضي الله عنه كهتے هيں كه جب رسول الله صلي الله عليه وسلم كسي ميت كے دفن سے فارغ هوتے تو آپ وهاں كچھ دير ٹھهرتے اور فرماتے كه اپنے بھائي كے لیے خدا سے مغفرت مانگو اور اس كے لیے ثابت قدم رهنے كي دعا كرو۔ كيوں كه اس وقت اس سے سوال كيا جارها هے (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر3221)
تشریح:اس كا مطلب غالباً يه نهيں هے كه قبر كے گڑھے ميں اس سے سوالات كیے جارهے هيں۔ اس كا مطلب يه هے كه تمهارا بھائي اب عمل كے مرحله سے گزر كر سوال كے مرحله ميں داخل هوگيا هے۔ اس کے لیے دعا كرو كه اس نازک مرحلے ميں وه كامياب هو۔يهاں قبر كي حيثيت علامتي هے، نه كه مكاني۔
134
ابو سعيد خدري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: كافر پر اس كي قبر ميں ننانوے ازدهے مسلّط كردیے جاتےهيں جو اس كو نوچتے اور ڈستے رهتےهيں، يهاں تك كه قيامت كا دن آجائے۔ ان ميں كا ايك بھي ازدھا اگر زمين پرايك پھنكار مار دے تو زمين سبزه اگانے كے قابل نه رهے(الدارمي) اسي طرح كي روايت ترمذي نے بھي نقل كي هے ليكن اس ميں ننانوے كے بجائے ستر كا عدد مذكور هے۔ (سنن الدارمي، حدیث نمبر2815؛ سنن الترمذي، حدیث نمبر2460)
تشریح:اس حديث ميں جس معاملے كا ذكر هے وه آخرت كي دنيا ميں پيش آنے والا ايك معامله هے۔ یہ ایک تمثیلی اسلوب ہے جس کے ذریعہ منکرینِ حق کے خوفناک انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ تاکہ انسان آسانی کے ساتھ اس حقیقت کو سمجھ سکے اور اس سے بچنے کی تیاری کرلے۔ اس قسم کی روایتوں كو اس اصول كي روشني ميں مجمل طورپر سمجھنا چاهیے۔
135
جابر بن عبد الله رضي الله عنه كهتے هيں كه جب سعد بن معاذ نے وفات پائي تو هم رسول الله صلي الله عليه وسلم کے ساتھ ان كي طرف گئے۔ جب آپ نے ان پر نماز پڑھ لي اور وه اپني قبر ميں ركھے گئے اور ان پر مٹي برابر كردي گئي تو رسول الله صلي الله عليه وسلم نے بهت لمبي تسبيح پڑھي هم نے بھي تسبيح پڑھي پھر آپ نے تكبير كهي اور هم نے بھي تكبير كهي۔ عرض كياگيا اے خدا كے رسول، اولاً تسبيح پھر تكبير كيوں كهي۔ فرمايا اس نيك بندے پر اس كي قبر تنگ هوگئي تھي حتيّٰ كه الله نے كشاده كردي۔(مسنداحمد، حدیث نمبر 14873)
تشریح:شيخ ناصر الدين الباني (وفات 1999)نے اس حديث كے بارے ميں لكھا هے كه اس كي سند ضعيف هے۔ سعد ابن معاذ انصاري رضي الله عنه ايك ممتاز صحابي تھے۔ خود مذكوره روايت ميں ان كو عبد صالح (نیک بندہ)كہاگيا هے۔ ايسي حالت ميں بظاهر يه ناقابلِ قياس هے كه ان كے اوپر عذاب کے لیےقبر تنگ هوجائے۔
136
عبدالله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے (سعد بن معاذ) كي بابت فرمايا:يه وه هيں جن كے لیے عرش هلا ،ان كے لیے آسمان كے دروازے كھول دیے گئے۔ اور ان كے جنازے ميں ستر هزار فرشتے شريك هوئے اور يه بھي حقيقت هے كه ايك بار ان كو قبر نے دبوچا پھر انھيں اس میں كشادگي حاصل ہوگئي۔ (سنن النسائي، حدیث نمبر2055)
تشریح:حضرت سعد بن معاذ اول درجه كے مومن اور صحابي هيں۔ اس لیے يا تو اس روايت ميں راوي سے كوئي بھول ہوئی هے۔ يا پھر يه ايك ايسا غيبي معامله هے جس كے بارے ميں عام انسان كو علم نهيں۔
137
اسماء بنت ابو بكر رضي الله عنہا كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبه كے لیے كھڑے هوئے۔ آپ نے قبر كے اس فتنه كا ذكر كيا جس ميں آدمي مبتلا كيا جاتا هے۔ جب آپ نے اس كا ذكر كيا تو مسلمان چيخ كر رونے لگے۔ بخاري كي روايت ميں اتنا هي هے۔نسائي نے اسماء رضي الله عنہا كے يه الفاظ بھي نقل كیےهيں كه: يه صورت حال ميرے لیے رسول الله صلي الله عليه وسلم كي بات سننے اور سمجھنے ميں مانع هوگئي۔ پھر جب لوگوں كے رونے اور چيخنے كي آواز بند هوئي تو ميں نے اپنے قريب كے آدمي سے پوچھا كه اے فلاں شخص الله تم كو بركت دے، رسول الله صلي الله عليه وسلم نے اپنے خطبه كے آخرميں كيا فرمايا۔ اس نے بتايا، آپ نے فرمايا كه مجھ پر يه وحي نازل هوئي هے كه تم اپني قبروں ميں جس فتنه ميں مبتلا هوں گے وه دجال كے فتنه سے قريب هوگا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1373؛ سنن النسائی، حدیث نمبر 2062)
تشریح:يه رونے والے لوگ سب كے سب اصحابِ رسول تھے۔ اس سےمعلوم هوا كه مومن اگر صالح اور باعمل هو اور اس كي نيت درست هو تب بھي وه آخرت كے عذاب سے ڈرتا هے۔ سچا مومن انديشه كي نفسيات ميں جيتا هے، نه كه سكون كي نفسيات ميں۔
138
جابر بن عبدالله رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب مردہ، قبر ميں ركھا جاتا هے تو سورج اس كو ڈوبتا هوا معلوم هوتاهے۔ چنانچه وه اپني آنكھ ملتا هوا اٹھتا هے اور كهتا هے كه مجھے چھوڑو، ميں نماز پڑھ لوں۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر4272)
تشریح:اس حديث سے معلوم هوتا هے كه آدمي كي نفسيات كا تسلسل موت كے بعد بھي جاري رهتا هے ۔ جو آدمي موجوده دنيا ميں خداكي ياد ميں جيتا هو، اس كي يه نفسيات موت كے بعد بھي اس كے اندر باقي رهے گي۔ اس كے برعكس، جو آدمي غير خدا ميں جي ر ها هو وه موت كے بعد بھي بدستور اسي حالت ميں مبتلا رهے گا۔
139
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: مرده قبر ميں پهنچتا هے، جب نیک انسان اپني قبرميں بٹھايا جاتا هے، وہ نه گھبراتا هےاور نه پريشان ہوتا ہے۔ پھر اس سے سوال كيا جاتا هے كه بتاؤ تم كس دين پر تھے۔ وه كهتاهے كه ميں اسلام پر تھا۔ پھر اس سے كها جاتا هے كه يه كون شخص هيں۔ وه كهتا هے كه محمد، الله كے رسول جو همارے پاس الله كے يهاں سے كھلي دليليں لے كر آئے۔ هم نے ان كو مانا۔ پھر اس سے كهاجاتا هے كه كيا تم نے الله كو ديكھا هے۔ وه كهتا هے كه الله كو ديكھنا كسي كے لیے ممكن نهيں۔ پھر اس كے لیے دوزخ كي طرف ايك كھڑكي كھولي جاتي هے۔ وه ديكھتا هے كه دوزخ كا ايك حصه اس كے دوسرے حصه كو تہس نہس کر رها هے۔ پھر اس سے كها جاتا هے كه ديكھو، اس سے الله نے تم كو بچا ليا۔ پھر اس كے لیے جنت كي طرف ايك كھڑكي كھول دي جاتي هے جس سے وه جنت كي رونق اور اس كي نعمتوں كو ديكھتا هے، اس سے كهاجاتا هے كه ديكھويه تمھارا ٹھكانا هے جو تم كو تمھارےاس يقين پر ملے گا جس پر تم تھے۔ اسي پر تمھاري موت آئي، اسي پر ان شاء الله تعاليٰ تمھيں اٹھايا جائے گا۔ (اس کے برعکس) برا شخص اپني قبر ميں گھبرايا ہوااور پريشان حال اٹھ كر بيٹھتا هے۔ اس سے كهاجاتا هے كه تم كس دين پر تھے۔ وه كهتا هے كه مجھ كو معلوم نهيں۔ پھر اس سے پوچھا جاتا هے كه بتاؤ يه شخص كون هے۔ وه كهتا هے كه ميں نے لوگوں كو ايك بات كهتے هوئے سنا تو ميں نے بھي كهه ديا۔ پھر اس كے لیے جنت كي طرف ايك كھڑكي كھولي جاتي هے جس سے وه جنت كي رونق كو اور جو كچھ اس ميں هے اس كو ديكھتا هے۔ پھر اس سے كها جاتاهے كه ديكھو يه وه جگه هے جس كو الله نے (تمھارے برے عمل کی وجہ سے)تم سے پھير ديا ہے۔ پھر اس كے لیے دوزخ كي طرف ايك كھڑكي كھولي جاتي هے جس سے وه ديكھتا هے كه اس كا ايك حصه دوسرے حصه كو تہس نہس کر رها هے۔ اب اس سے كها جاتا هے كه ديكھو يه تمھارا ٹھكانا هے جو تم كو تمھارے اس شك كي بنا پر ملے گا جس ميںتم مبتلا تھے۔ اسي شك كي حالت ميں تمھاري موت آئي اور، ان شاء الله، اسي حالت ميں تمھيں اٹھايا جائے گا۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر4268)
تشریح:حق هميشه دليل كي سطح پر ظاهر هوتا هے۔ كامياب انسان وه هے جو دليل كي صورت ميں ظاهر هونے والے حق كو پهچانے اوركامل يقين كے ساتھ اس كو اختيار كرلے۔ دوسرا انسان وه هے جو دليل كي صورت ميں حق كو پهچاننے ميں ناكام رهے۔ جو دلائل كے باوجود برابر شك ميں مبتلا رهے۔ پهلے انسان كے لیے جنت هے اور دوسرے انسان كے لیے جهنم۔
140
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جو شخص همارے اس دين ميں ايسي بات نكالے جو اس ميں نه هو تو وه باطل هے۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر2697؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1718)
تشریح:اسي كو بدعت (innovation)كهتے هيں۔ اسلام ميں اجتهاد جائز هے، مگر اسلام ميں بدعت جائز نهيں۔ اجتهاد بدلے هوئے حالات ميں اسلامي تعليم كے از سرِ نو انطباق (reapplication) كا نام هے۔ اس كے برعكس، بدعت يه هے كه دين ميں كوئي ايسي نئي بات نكالي جائے جو قرآن وحديث سے ثابت نه هو۔بدعت كي ايك مثال قرآن كے مطابق، رهبانيت (57:27) هے۔ رهبانيت كا مطلب هے دنيا كي محبت سے بچنے كے لیے خود دنيا كو چھوڑ دينا۔ مگر خدا كے دين ميں تركِ دنيا كي تعليم نهيں دي گئي هے۔ صحیح خدائي دين يه هے كه آدمي دنيا ميں رهے، مگر وه دنيا كي محبت ميں مبتلا نه هو۔ اس مثال سے بدعت كي دوسري قسموں كو سمجھا جاسكتا هے۔
141
جابر بن عبد الله رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خطبه ديتے هوئے فرمايا: بلا شبه الله كا كلام سب سے بهتر كلام هے اور سب سے بهتر طريقه محمد كا طريقه هے اور سب سے بري چيز وه باتيں هيں جو نئي نكالي جائيں۔ اور هر بدعت گمراهي هے ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر867)
تشریح:بدعت كيوں سب سےبڑي برائي هے۔ اس كا سبب يه هے كه بدعت خدا كے دين ميں ايك انساني اضافه هے۔ بدعت در اصل یہ ہے کہ غیر دینی طریقے کو دینکا نام دے کر اختیار کرلیا جائے۔ اس قسم كا اضافه ايك مجرمانه جسارت بھي هے اور صراطِ مستقيم سے بھٹكنا بھي۔یہود ونصاریٰ اپنے دورِ زوال میں جن برائیوں میں مبتلا ہوئے، اُن میں سے ایک برائی وہ ہے جس کو قرآن میں مُضاہاۃ (9:30) کہاگیا ہے۔ مضاہاۃ کے لفظی معنی مشابہت (imitation) کے ہیں، یعنی غیردینی طریقے کو دین کا لیبل لگا کر اختیار کرلینا۔ مثلاً غیرمسلموں کے یہاں خدا کی پرستش کے بجائے بتوں کی پرستش کا رواج ہے، اِس سے متاثر ہو کر اس روش کو اختیار کرلینا، اور اس کو بزرگانِ دین کی پیروی یا تعظیم کا نام دے دینا، وغیرہ۔بدعت کے تمام طریقے اِسی مضاہاۃ کی فہرست میں شامل ہیں۔
142
عبد الله ابن عباس رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله كے نزديك لوگوں ميں سب سے زياده مبغوض لوگ تين هيں — حرم ميں بے ديني كرنے والا اور اسلام ميں جاهلي طريقه چاهنے والا۔ اور کسی انسان کے خونِ نا حق کا طلبگار، تا كه وه اس كا خون بهائے۔ (صحیح البخاري، حدیث نمبر6882)
تشریح:جرم كي دو قسميں هيں۔ ايك وه جو بشري كمزوريوں كے تحت سرزد هوں۔ دوسرا وه جو انانيت كي بنا پر كياجائے۔ اس دوسرے قسم كے جرم كا نام سركشي هے، اور سركشي بلا شبه الله كے نزديك سب سے زياده سنگين جرم هے۔
خالق نے انسان کو ایک استثنائی صلاحیت دی ہے، یعنی انا(ego)۔ یہ صلاحیت انسان کو پوری کائنات میں ایک خصوصی درجہ عطا كرتي ہے۔ لیکن انا کے دو پہلو ہیں — پلس پوائنٹ اور مائنس پوائنٹ۔ اجتماعی زندگی، خواہ وہ خاندانی زندگی ہو، یا خاندان سے باہر کی زندگی، اُس میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایسے تجربات پیش آتے ہیں کہ اس کا ایگو (انا) جاگ اٹھتا ہے۔ اِس طرح کے موقع پر اگر ایسا ہو کہ انسان اپنے آپ کو کنٹرول کرے، وہ ایگو مینجمنٹ (ego management) کا ثبوت دے، تو گویا کہ اُس نے اپنے ایگو کا صحیح استعمال کیا۔ اور اگر ایسا ہو کہ جب اس کا ایگو بھڑکے تو اس کی پوری شخصیت اُس سے متاثر ہو جائے۔ ایسی حالت میں وہ سرکشی کے راستے پر چل پڑے گا۔ یہ اس کے لیے ایگو مینجمنٹ میں ناکام ہونے کا واقعہ ہوگا۔
143
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ميري ساري امت جنت ميں جائے گي سوا اس كے جس نے انكار كيا۔ كهاگياكه كون هے جس نے انكار كيا۔ آپ نے فرمايا كه جس شخص نے ميري اطاعت كي وه جنت ميں داخل هوگا اور جس نے ميري نافرماني كي اس نے انكار كيا۔ (صحیح البخاري، حدیث نمبر7280)
تشریح:پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كے ذريعه الله تعاليٰ نے عقيده وعمل كا وه طريقه بتايا هے جو اس آخرت ميں نجات كا ضامن هے۔ جنت ميں وهي شخص داخل هوگا جو اس پيغمبرانه طريقه كا پيرو بنے۔
144
حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس فرشتے آئے جب كه آپ سورهے تھے۔ انھوں نے (آپس میں)كها كه اِن کی ایک مثال ہے وہ بیان کرو۔ بعض فرشتوںنے كها كه وه سو رهے هيں۔اور بعض نے كها كه (ان کی) آنكھ سو رهي هے اور دل بيدار هے۔ پھر انھوں نے كها كه ان كي مثال ايسي هے جيسے كوئي شخص ايك گھر بنائے اور اس ميں وه ايك دستر خوان ركھے اور بلانے والے كو بھيجے۔ جو داعي كي پكار پر لبيك كهے گا وه گھر ميں آئے گااور دستر خوان سے كھائے گا۔ اور جو داعي كي پكار پر لبيك نه كہے گا وه نه گھر كے اندر داخل هوگا اورنه دسترخوان سے كھائے گا۔ پھر انھوں نے كها كه ان كے لیے اس كي وضاحت كردو تاكه وه اس كو سمجھ جائيں۔ ان ميں سے بعض نے كها كه وه سورهے هيں۔ ان ميں سے بعض نه كها كه آنكھ سورهي هے اور دل بيدار هے۔انھوں نے كها كه وه گھر جنت هے اور داعي محمد هيں۔ پس جس نے محمد كي اطاعت كي اس نے الله كي اطاعت كي اور جس نے محمد كي نافرماني كي اس نے الله كي نافرماني كي۔ اور محمدلوگوں كے درميان فرق كرنے والے هيں۔ (صحیح البخاري، حدیث نمبر7281)
تشریح:پيغمبر اسلام كا لايا هوا دين گويا رزق رباني كا ايك دسترخوان هے۔ جو آدمي اس دسترخوان سے اپنا رزق لے وهي كامياب هے اور جو اس رزق سے محروم رهے وهي ناكام هے۔اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:تمہارے رب کا رزق زیادہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے(20:131)۔
145
انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه تين آدمي نبي صلي الله عليه وسلم كي ازواج كے پاس آئے۔ انھوں نے ان سے رسول الله صلي الله عليه وسلم كي عبادت كے بارے ميں سوال كيا ۔ تو ان كو جب اس كي بابت بتايا گيا تو گويا كه انھوں نے اسے كم سمجھا۔ انھوں نے كها كه هم كو رسول الله صلي الله عليه وسلم سے كيا نسبت۔ ان كے اگلے پچھلے تمام گناه الله تعاليٰ نے بخش دیے هيں۔ ان ميں سے ايك نے كها كه ميں تو ساري رات نماز پڑھوں گا اور دوسرےنے كها كه ميں هر دن روزه ركھوں گا اور كبھي افطار نه كروں گا۔ تيسرے نے كها كه ميں عورت سے الگ رهوں گا اور ميں كبھي نكاح نه كروں گا ۔پھر رسو ل الله صلي الله عليه وسلم ان كے پاس آئے اور كها كه كيا تم هي وه لوگ هو جنھوں نے ايسا اور ايسا كها هے۔ آپ نے فرمايا كه خدا كي قسم، ميں تم سے زياده الله سے ڈرنے والا هوں۔ مگر ميں روزه ركھتا هوں اور روزه نهيں بھي ركھتا، نماز پڑھتا هوں اور سوتا بھي هوں اور عورتوں سے نكاح كرتا هوں۔ پس جس نے ميرے طريقه سے اعراض كيا وه مجھ سے نهيں ۔(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر5063؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1401)
تشریح:اسلامي عبادت يه نهيں هے كه آدمي پُر مشقت اعمال كے ذريعه اپنے جسم كو تھكائے بلكه اسلامي عبادت يه هے كه آدمي الله كي طرف متوجه هو اور اپني روح كو الله كي محبت اور الله كے خوف سے آباد كرے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :اللہ کو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(22:37)