صحابی کا طریقہ

مکی دور کے آخری زمانہ میں مخالفین کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اجازت دیدی کہ ان میں سے جو لوگ چاہیں وہ سمندر پار ملکِ حبش چلے جائیں۔ چنانچہ ایک سو سے زیادہ آدمی مکہ چھوڑ کر حبش چلے گئے   ۔

 یہ اسلامی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے اور بہت سے واقعات اس سے وابستہ ہیں ۔ اس سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ مسلمان حبش میں پر امن طور پر رہ رہے تھے ۔ ان کی پاکیزہ سیرت کے نتیجے میں وہاں کا بادشاہ نجاشی بھی ان کی نہایت عزت کرتا تھا۔ اس درمیان میں ایک حادثہ پیش آیا۔

 امام احمد نے ام سلمہ سے روایت کیا ہے کہ ہم لوگ حبش میں بہتر ملک اور بہتر پڑوسیوں کے درمیان تھے کہ نجاشی کے ایک حریف بادشاہ نے اس کے اوپر چڑھائی کر دی ۔ ہم لوگوں کو اس کا بہت زیادہ دکھ ہوا۔ نجاشی اپنی فوج کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلا۔ یہاں تک کہ وہ دریائے نیل کے اس پار چلا گیا ۔

چند دن کے بعد اصحاب ِرسول نے آپس میں کہا کہ ہم میں سے کسی شخص کو مقام جنگ پر جانا چاہیے اور وہاں سے خبر لانا چاہیے ۔ زبیر بن عوّام نے کہا کہ میں جاؤں گا ۔ وہ اس وقت نوجوان تھے :

قَالَتْ فَنَفَخُوا لَهُ قِربَةً فَجَعَلَهَا فِي صَدْرِهِ فَسَبَحَ عَلَيْهَا حَتَّى خَرَجَ إلی نَاحِيَةِ النِّيلِ الَّتِي بھا مُلْتَقَى الْقَوْمِ ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى حَضَرَهُمْ .ام سلمہ کہتی ہیں کہ لوگوں نے ان کے لیے ایک مشک میں پھونک مارکر ہوا  بھری ۔ پھر انھوں نے اس کو اپنے سینہ پر باندھا۔ اس کے بعد وہ نیل میں داخل ہوئے اور اس کے سہارے سے تیر کردریا کے دوسری جانب پہونچے جہاں میدان مقابلہ قائم تھا۔ پھر وہ مزید چلے یہاں تک کہ وہ ان لوگوں تک پہونچ گئے   ۔

حضرت ام سلمہ  مزید  بتاتی ہیں کہ ہم لوگ نجاشی کے لیے دعا کرتے رہے کہ اس کو فتح ہو اوراس کو اپنے ملک میں استحکام حاصل ہو۔ خدا کی قسم ، ہم اسی حال میں تھے کہ زبیر بن عوّام واپس آئے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم لوگوں کو بشارت ہو ، اللہ نے نجاشی کو فتح دی اور اس کے دشمن کو ہلاک کر دیا ۔ اس خبر کو سن کر ہم لوگ اتنا خوش ہوئے جتنا کبھی خوش نہیں ہوئے تھے (الجزء الأول،صفحہ ۵۳ – ۳۵۲)

مشک میں ہوا بھر کر اس کو تیرنے کے لیے بطورِ معاون استعمال کرنا عین  وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانہ میں لائف بوائے (lifebuoy) کہا جاتا ہے۔ جدید لائف بوائے کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ قدیم مشک گویا اسی تکنیک کی سادہ اور ابتدائی صورت تھی۔

مکہ میں دریا نہ تھا، اس لیے مکہ میں اس تدبیر کا رواج نہیں ہو سکتا۔ گمان غالب یہ ہے کہ ان مسلمانوں نے حبش میں اس تدبیر کو معلوم کر کے اس کو استعمال کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئی چیزوں کی تلاش کا کتنا ز بر دست جذبہ ان مسلمانوں کے اندر ابھر آیا تھا۔

 حضرت زبیر بن عوّام ایک صحابیٔ رسول تھے ۔ ان کے اندر بلاشبہ کامل اور معیاری ایمان پایا جاتا تھا۔ مگر اپنے سینہ میں اعلیٰ ترین اور طاقت ور ترین ایمان کا سرمایہ رکھنے کے باوجود انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ بس جوش کے تحت دریا میں کو دپڑیں ۔ وہ کہیں کہ ہمارے پاس ایمان کی دولت موجود ہے ، اس لیے اب ہم کو مزید کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔

 انھوں نے اس قسم کے جوشِ ایمان کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ کیا کہ زمانہ کے مطابق،تیراکی کی تدبیر دریافت کی اور اس کو عین اس طرح استعمال کیا جس طرح دوسرے غیر مسلم لوگ اس کو استعمال کر رہے تھے ۔ وہ دریا میں کو دے ، مگر تدبیری اہتمام کے ساتھ۔ وہ اپنے ایمانی جذبہ کے تحت متحرک ہوئے ، مگر اسباب کی ضروری شرطوں کو پورا کر لینے کے بعد۔

 یہ صحابہ کا اسلام تھا ۔ اور اسلام بلاشبہ وہی ہے جو صحابہ نے اختیار کیا ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom