عمل کے نام پر بے عملی
شیخ محمد اکرام ( آئی سی ایس) کی کتاب "موج کو ثر " ۳۶۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں انیسویں صدی کے آغاز سے لے کر ۱۹۴۷ تک کی مسلم تحریکوں اور رہنماؤں کا ذکر ہے۔ اس کےایک باب کا عنوان ہے "دورِ ردِعمل کی خصوصیات " اس باب کے تحت وہ لکھتے ہیں :
"دور ردعمل میں "پدرم سلطان بود" اور "ہمچو ما دیگر نیست" کی آواز یں جس طرح بلند ہوئیں، اس پر دیدہ ور لوگوں نے کان کھڑے کئے اور آنکھیں دکھائیں ۔ علامہ شبلی نے ، جب وہ ابھی علی گڑھ سے وابستہ تھے اور سرسید کے رفیق کا رتھے ، ان خدشات کو بڑے لطف سے نظم کیا جو سلف پرستی سے پیدا ہونے والے تھے :
سلف کا تذکرہ جو ہمت و غیرت کا ہے افسوں ہمارے حق میں وہ سرمایۂ خواب پریشاں ہے
یہ افسانے بڑھاتے ہیں ہماری نیند کی شدت یہ افسوں حق میں اپنے اور مدہوشی کا ساماں ہے
ہمیں احساس تک ہوتا نہیں اپنی تباہی کا کہ سب پیشِ نظر اسلاف کی وہ شوکت و شاں ہے
ہماری کلفتیں سب دور ہو جاتی ہیں یہ سن کر کہ دنیا آج تک اسلام کی ممنونِ احساں ہے
مزے لیتے ہیں پہروں تک کسی سے جب یہ سنتے ہیں کہ یورپ دولت عباس کا اب تک ثنا خواں ہے
نہیں رہنے کو یاں گھر تک، مگر چر چے یہ رہتے ہیں کہ اب تک قصر حمراقبلہ گا ہ رہ نورداں ہے
ہیں خود ان پڑھ ، مگر اس زعم میں اترائے پھرتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں سے زندہ اب تک نام یوناں ہے
نظر آتے ہیں ہم کو عیب اپنے خوبیاں بن کر ہم اپنے جہل کو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عرفاں ہے
نواب عماد الملک بلگرامی نے بھی اس کے چند سال بعد علی گڑھ ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں کہا :
"ہم مسلمانوں میں آج کل ایک نیا مرض شائع ہو گیا ہے۔ جس کو اسلاف پر ستی کہتے ہیں۔۔۔ ان حضرات نے آفت بر پا کر دی ہے۔ کوئی مسلمانوں کی علمی دولت کو شمار کرتا ہے۔ کوئی تمدنی خو بیاں گنتا ہے ۔ کوئی ہمارے مدارس اور یونیورسٹیوں کی فہرست تیار کرتا ہے۔ کوئی ہماری یونانی کتابوں کے ترجموں کا حساب دیتا ہے۔ کوئی اندلس کی حکومت کا زور دکھاتا ہے۔ کوئی ہارون اور مامون کی شان بیان کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلاف پرستی بہت عمد ہ شیوہ ہے مگر اسی حد تک کہ ہم اپنے بزرگوں کی محنت ، ان کی یک رنگی ،ان کی نفس کشی کی تقلید کریں اور ان کا سا صبر و استقلال ، ان کا سا انہماک طلب علم میں پیدا کریں۔۔۔ یہ کہ ہمارے بزرگوار جو کچھ اپنے وقت میں کر گئے تھے ، ان پر غرّہ کریں اور مثل زنِ بیوہ کے ان کے نام پربیٹھ ر ہیں اور ان کی علمی بزرگیوں کا تذکرہ دوسروں سے سن کر زمانہ ٔحال کی دولت ِعلمی کو حقیر سمجھیں اور اس کے دریافت سے اغماض کریں" ۔ (موج کوثر ۸۳- ۲۸۲ )
اس زمانہ میں مسلمانوں کے احیاءِ نو کی سب سے زیادہ آسان تد بیر یہ سمجھ لی گئی تھی کہ ماضی کی شاندار تاریخ کو یاد دلا کر لوگوں میں حال کا ولولہ پیدا کیا جائے ۔ یہ مزاج اتنا بڑھا کہ خود مولانا شبلی نعمانی اس کا شکار ہو گئے جنہوں نے ابتدائی طور پر اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ چنا نچہ بعد کے زمانہ میں انھوں نے خود بھی یہی کیا کہ دورِ فتوحات کے کارنامے بتا کر مسلمانوں میں جوشِ عمل پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
مگر یہ طریقہ سراسر بے فائدہ تھا۔ اس تدبیر میں بنیادی خامی یہ تھی کہ وہ " تیاری "کے دور کو حذف کر کے صرف "نتیجہ" کے دور کو نمایاں کر رہا تھا۔ وہ ابتدائی جدوجہد کو چھوڑ کر آخری منزل سے اپنے سفر کا آغاز کرنا چاہتا تھا۔ ایسا سفر اس اسباب کی دنیا میں کبھی شروع نہیں ہوتا۔ چنانچہ سو سال کے پر جوش لفظی ہنگاموں کے باوجود وہ شروع بھی نہ ہو سکا ، اور منزل پر پہنچنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
اس قسم کی تحریکیں آدمی کے اندر صرف فخر کا جذبہ ابھارتی ہیں ۔ حالاں کہ احیا ءنو کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر عمل کا جذبہ ابھار اجائے۔ اس طرح یہ طریقہ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی وہ ہمارے حق میں ثابت ہوا۔ مسلمان فرضی بھرم میں مبتلا ہو کر ایک ایسی قوم بن گئے جس کے پاس الفاظ کی دھوم تو بہت ہے مگر حقیقی عمل کا سرمایہ اس کے پاس موجود نہیں۔