سائنس کی گواہی

ڈاکٹر ماریس بوکائی (Dr Maurice Bucaille) فرانس کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے قرآن کے بارے   میں ایک کتاب لکھی۔ وہ اولاً  فرانسیسی زبان میں ۱۹۷۶ میں شائع ہوئی۔اس کے بعد دس زبانوں میں اس کے ترجمے چھپے ۔ انگریزی میں اس کتاب کا نام یہ ہے :

The Bible, the Qur'an and Science

اس کتاب میں ڈاکٹر ماریس بوکائی نے دکھایا ہے کہ علم سائنس کے بارے   میں قرآن کے بیانات حیرت انگیز طور پر جدید تحقیقات کے مطابق ہیں۔ قرآن اگرچہ دور سائنس سے بہت پہلے پیش کیا گیا ، مگر بعد کے زمانہ میں ظاہر ہونے والی علمی حقیقتوں کا اس میں بالکل صحیح بیان موجود ہو نا یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن ایک برتر ذہن کی تخلیق ہے ۔ وہ انسانی ذہن کی تصنیف نہیں (ملاحظہ ہو عظمت قرآن ، اور اسلام اورعصر حاضر)

ڈاکٹر ماریس بوکائی کی دوسری کتاب انسان کی پیدائش اور رحم ِمادر میں اس کے ارتقاء کے بارے   میں ہے جو کہ ڈاکٹر بوکائی کا خاص موضوع ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے دکھایا ہے کہ انسان کی پیدائش کے بارے   میں قرآن میں جو بیانات ہیں، وہ جدید تحقیقات کے عین مطابق ہیں ، جب کہ ان تحقیقات کے نتا ئج صرف بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں انسان کو معلوم ہو سکے ہیں ۔

ڈاکٹر بوکائی کی اس دوسری کتاب کا فرانسیسی اڈیشن ۱۹۸۴ میں پیرس سے شائع ہوا۔ ۲۲۰صفحات پر مشتمل اس کتاب کے انگریزی اڈیشن کا نام یہ ہے :

What is the Origin of Man?

Published by Seghers. 6 Place Saint-Sulpice.

75006 Paris

ڈاکٹر ماریس بوکائی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے فرانس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن محمد کی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کو بائبل سے کچھ گھٹا کر یا بڑھا کر تیار کر لیا ہے ۔ اپنے اس ذہن  کی بنا پر میں قدرتی طور پر یہ سمجھتا تھا کہ بائبل کے اندر جو علمی غلطیاں (scientific errors) ہیں ، وہ لاز ماً  قرآن کے اندر بھی ہونی چاہئیں)۱۵۷(

مزید یہ کہ محمد کے الہام کا زمانہ ۶۱۰ ء سے لے کر ۶۳۲ ء  تک ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مشرق و مغرب میں ہر طرف علمی تاریک خیالی (scientific obscurantism) کا ذہن چھایا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے یہ بھی ہونا چاہیے   کہ اس تاریک علمی دور کے اثرات ان کی کتاب میں پائے جار ہے ہوں ۔

مگر بعض تجربات کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ قرآن کے بیانات اور بائبل کے بیانات میں اگر چہ کئی باتیں مشترک ہیں مگر قرآن حیرت انگیز طور پر اس قسم کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے ان علمی غلطیوں کو حذف کر دیتا ہے جو موجودہ بائبل میں پائی جاتی ہیں۔ اب ان کا تجسّس بڑھا۔ یہاں تک کہ قرآن کو براہ راست اس کی اپنی زبان میں سمجھنے کے لیے   انھوں نے پچاس سال کی عمر میں عربی زبان سیکھنا شروع کر دیا ۔ اس کے بعد جب انھوں نے قرآن کو براہ راست پڑھا تو انھوں نے حیرت انگیز طور پر پایا کہ بائبل ایک طرف علمی غلطیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر دوسری طرف قرآن کا حال یہ ہے کہ وہ علمی غلطیوں سے یکسر خالی ہے۔

 اگر قرآن محمدﷺ  کی کتاب ہو اور انھوں نے اس کو بائبل اور وقت کی معلومات کی مدد سے مرتب کیا ہو تو کیا وجہ ہے کہ قرآن میں وہ تمام علمی غلطیاں حذف ہیں جو بائبل میں یا محمد کے زمانہ میں پائی جا رہی تھیں ۔ مثلاً بائبل میں انسان کے ظہور کی جو تاریخ دی گئی ہے اس کے لحاظ سے ۱۹۸۱ کے حساب کے مطابق ، زمین پر انسان کا ظہور پہلی بار ۵۷۴۲ سال پہلے ہوا۔ مگر اس قسم کی بے معنی غلطیاں قرآن میں بالکل نہیں پائی جاتیں (صفحہ ۱۵)

بائبل میں کثرت سے علمی غلطیاں ہیں۔ وہ اتنی واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن نہیں ۔ جین گوٹن (Jean Guitton) نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بائبل کی علمی غلطیاں انسانی غلطیاں ہیں۔ کیوں کہ اس وقت انسان ایک بچہ کی مانند تھا ، اور اس بنا پر وہ علمی حقائق سے بے خبر تھا :

The scientific errors in the Bible are the errors of mankind for long ago man was like a child, as yet ignorant of science (p. 152).

ایسی حالت میں محمد کے لیے   کیسے ممکن ہوا کہ وہ قرآن کو مرتب کرتے ہوئے بائبل کی یا اپنے زمانہ کی غلطیوں کو قرآن سے حذف کر دیں۔ وہ ایسی کتاب تیار کریں جس میں استثنائی طور پر کوئی بھی علمی غلطی موجود نہ ہو (۱۶۰) مصنف یہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن محمد کی کتاب نہیں  وہ ایک ماورائے انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ علم کی تاریخ ہم کو اس نتیجہ تک پہنچاتی ہے کہ قرآن میں اس قسم کی آیتوں کی موجودگی کی کوئی انسانی تو جیہہ ممکن نہیں :

The history of science leads us to conclude that there can be no human explanation for the existence of these verses in the Qur'an (p. 188).

قرآن کا یہ استدلالی پہلو قرآن کی اس آیت کی تصدیق ہے جو چودہ سو سال پہلے قرآن میں شامل کی گئی تھی ––––  ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے ، آفاق میں بھی اور خو دلوگوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے (حٰم السجدہ ۵۳)

جو لوگ قرآن کو خدا کی کتاب ماننے کے لیے   اس کی سائنسی دلیل چاہتے ہیں، ان کو ڈاکٹر موریس بو کائی کی مذکورہ دونوں کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے  ۔

قرآن فنی معنوں میں سائنس کی کتاب نہیں ۔ مگر قرآن جن عقائد کو ماننے کی دعوت دیتا ہے ، اس کے لیے   وہ فطرت کی نشانیوں کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ یہ فطرت کی نشانیاں کیا ہیں ، یہ وہی نیچر ہے جس کا مطالعہ سائنس میں کیا جاتا ہے۔

نیچر قرآن کا موضوع بھی ہے اور سائنس کا موضوع بھی ۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ قرآن میں فطرت کے بعض پہلوؤں کا ذکر بطورِ دلیل آیا ہے۔ جب کہ سائنس میں فطرت کا مطالعہ مستقل فن کی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔ مگر قرآن میں جہاں کہیں بھی نیچر کا کوئی حوالہ ہے ، وہ بعد کی سائنسی تحقیقات کے مطابق ہے۔ اس مطابقت کی کوئی بھی توجیہہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ قرآن کو اس خدا کی کتاب مانا جائے جو تمام کھلی اور چھپی باتوں کو جانتا ہے، جس کا علم بیک وقت ماضی ، حال اور مستقبل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom