ناکامیوں کے بعد
ظہیر الدین محمد با بر (۱۵۳۰ - ۱۴۸۳) فرغانہ میں پیدا ہوا ۔ یہ علاقہ اس وقت سوویت روس (از بیک) میں شامل ہے ۔ باپ کے واسطہ سے اس کا سلسلہ نسب تیمور سے ملتا ہے اور ماں کے واسطہ سے چنگیز خاں سے۔ بابر کا باپ عمر شیخ مرزا فرغانہ کا حاکم تھا۔ اُس وقت یہ مقام کوہ ہندوکش کےشمال میں ایک چھوٹے پر گنہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
فرغانہ کے پڑوس میں سمرقند تھا جو تیمور کی قدیم راجدھانی تھا۔ یہاں محمد شیبانی خاں کی حکومت تھی جو چنگیز خاں کی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ بابر کا باپ مستقل اس کوشش میں رہا کہ وہ سمرقند کو فتح کر کے اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرے۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ باپ کی وفات پر ۱۴۹۴ میں بابر فرغانہ کا حاکم بنا جب کہ اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی ۔ باپ کی پیروی میں اس نے سمر قند پر قبضہ کرنے کے لیے اس پر کئی حملے کیے ۔ مگر ۱۵۰۱ میں اس کو فیصلہ کن شکست ہوئی ۔ یہاں تک کہ اس نے خود اپنی موروثی سلطنت فرغانہ کو بھی کھو دیا ۔
ایک مورخ نے لکھا ہے کہ ایک کم سن بادشاہ کی حیثیت سے بابر نے فرغانہ کو کھو دیا۔ وہ مصیبتوں کے ایک دور میں داخل ہو گیا ۔ اس کو خود اپنے پدری اور مادری چچاؤں سے لڑائی لڑنی پڑی ۔ مگر ۲۰ سالہ مصیبت اور جنگ کے دوران اس نے اپنے حریفوں (ترک ، مغل ، ایرانی اور افغانی) سے کامیاب جنگی تدبیریں اور حربی طریقے سیکھ لیے۔ اس نے ان طریقوں میں سائنٹفک امتزاج پیدا کیا۔ سالہا سال کی شکستوں اور وطن سے محرومی اور طرح طرح کی مشکلات کے نتیجہ میں وہ ایک اچھا فوجی جنرل بن گیا ۔ اپنے باپ دادا کے علاقہ کو حاصل کرنے کے بارے میں اپنے منصوبہ کی ناکامی کے بعد بابر نے اپنی توجہ ہندستان کی طرف موڑ دی :
As a boy king he lost Farghana and passed through a period of adversity, having to fight his own paternal and maternal uncles. During 20 years of adversity and warfare Babur trained himself by appropriating military tactics and modes of warfare of his adversaries: Turks, Mongols, Persians, and Afghans, and he made a scientific synthesis of these systems. He became a good general through a career of many defeats and through years of homeless wanderings, privations and hardships... Foiled in his design of recovering his ancestral domain in Central Asia, Babur turned his attention to India. (9/378).
بابر نے پہلی بار ۱۵۱۹ میں ہندستان پر حملہ کیا ۔ اس کی پیش قدمی جاری رہی ۔ یہاں تک کہ ۱۵۲۶ میں اس نے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر کے ہندستان میں مغل سلطنت کی بنیا د رکھی ۔ اپنے وطن فرغانہ کو اس نے ایک شکست خوردہ انسان کی حیثیت سے چھوڑا تھا ، مگر ۲۶ دسمبر ۱۵۳۰ کو آگرہ میں جب اس کا انتقال ہوا تو تاریخ اس کو اپنے صفحات میں ایک فاتح بادشاہ کی حیثیت سے درج کر چکی تھی۔
بابر کو کامیابی اس حوصلہ مندانہ عمل کی بنا پر ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیا۔ اس نے خود ناکامی کے اندر وہ پہلو تلاش کرلیے جو اس کو عظیم تر کامیابی کی طرف لے جانے والے ہوں ۔
بابر کو جب اپنے حریفوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی تو اس نے شکایتی انداز اختیار نہیں کیا۔ اس نے ایسا نہیں کیا کہ وہ ان کی سازشوں اور ان کے تخریبی منصوبوں کی فہرست مرتب کرنے لگے۔ وہ اپنے حریفوں کے خلاف لفظی گولہ باری میں مشغول ہو جائے ۔
اس کے بجائے بابر نے اپنا ذہن اس سوچ میں لگایا کہ میرے حریفوں کو میرے مقابلہ میں کامیابی کیونکر حاصل ہوئی ۔ میری ہار اور ان کی جیت کا سبب کیا تھا۔ بابر کی اس سوچ نے اس کو بتایا کہ اس کے حریف زیادہ کارگر تدبیروں کو جانتے تھے ۔ انھوں نے زیادہ موثر حربے استعمال کر کے اس کو ناکام بنا دیا ۔
اب بابر نے اپنے حریف کے حربوں اور ان کی تدبیروں کو اپنا نا شروع کیا ۔ اس نے مزید غور و تجربہ کے ذریعہ ان کو مزید ترقی یافتہ بنایا ۔ اس طرح زیادہ بہتر طور پر مسلح ہو کر اس نے ایک نئے وسیع تر میدان (بر صغیر ہند )کی طرف رخ کیا۔ اس کی یہ تدبیر کامیاب رہی ۔ اپنے وطن میں اس نے جتنا کھویا تھا ، اس سے بہت زیادہ اس نے وطن کے باہر حاصل کر لیا ۔
موجودہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے ۔ یہاں دوسروں سے ٹکراؤ ہوتا ہے ۔ اس لیے ناکامیوں کا پیش آنا لازمی ہے ۔ کامیاب وہ ہے جو اپنی ناکامی کو اپنے لیے غذا بنا سکے ۔ وہ کھونے میں پانے کاراز دریافت کرلے ۔