ایک سفر

ایک بین اقوامی اسلامی کا نفرنس میں شرکت کے لیے   مارچ ۱۹۹۰ میں ایک سفر ہوا۔ مہینہ کے آخر میں دوبارہ دہلی واپسی ہوئی۔

 ۱۷ مارچ کو فجر سے پہلے گھر سے ایر پورٹ جانے کے لیے   نکلا تو ایک حدیث یاد آگئی جس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جس آدمی کو اندیشہ ہوتا ہے وہ صبح سویرے سفر کے لیے   نکلتا ہے۔ اور جو آدمی سویرے سفر کے لیے   نکلتا ہے وہی اپنی منزل پر پہنچتا ہے (مشکاۃ المصابیح الجزء الثالث ، صفحہ ۱۴۶۹)

حدیث میں ادلاج کا لفظ ہے جس کے معنی رات کے آخری حصہ میں یا صبح کے اندھیرے میں سفر کے لیے   نکلنا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب آغاز سفر میں جلد روانگی کا اہتمام کرنا ہے تا کہ سفر کامیابی کے ساتھ طے ہو سکے۔ یہی معاملہ آخرت کے سفر کا بھی ہے ۔ آخرت کے سفر میں کامیابی کے ساتھ منزل پر پہنچنے کے لیے   ضروری ہے کہ اس کے تقاضوں کو سمجھ کراس کا پورا اہتمام کیا جائے۔

دہلی سے جہاز کی روانگی کا وقت صبح ساڑھے چھ بجے تھا۔ فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہوا۔ راستہ میں لال بتی پر گاڑی رکی تو مجھے قرآن کی آیت‌وَقِفُوهُمۡۖ إِنَّهُم مَّسۡـُٔولُونَ [الصافات: 24] یاد آگئی ۔ آخرت میں وہی شخص پار ہو گا جس کو روکا نہ جائے۔ جس آدمی کو جانچ کے لیے   روکا گیا وہ ہلاک ہوا۔

میرے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں صاحب مرحوم نے ایک بار ایک ٹرک خریدا۔ جلد ہی بعد انھوں نے اس کو بیچ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ٹرک کے بارے   میں حکومت نے اتنے زیادہ قانون اور قاعدے بنارکھے ہیں کہ اس کا پکڑ سے بچنا سخت مشکل ہے۔ پولیس والوں نے جس ٹرک کو جانچ کے لیے   روکا اس کا چالان ہو نا لازمی ہے۔ آخرت میں ٹکنکل قسم کے ضابطوں پر تو کسی کی پکڑ ہونے والی نہیں ہے۔ البتہ عمل کے خالص پن (purity) پر ضرور وہاں جانچ ہو گی ۔ جس آدمی کا عمل خالص اللہ کے لیے   ہو وہ بچے گا اور جس آدمی کا عمل خالص اللہ کے لیے   نہ ہو ، اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔

 ایر پورٹ کے اندر امیگریشن پر بڑی لمبی لائن تھی ۔ کھڑے کھڑے طبیعت گھبرا اٹھی۔ میں نے سوچا کہ آخرت میں اگر کوئی اور سزا نہ ہو ، صرف اتنا ہو کہ کر وروں انسانوں کی قطار کے درمیان تیز سورج میں کھڑا کر دیا جائے تو آدمی کا کیا حال ہو گا۔

 دہلی سے ۱۷ مارچ ۱۹۹۰  کی صبح کو اردن ایر لائننر( فلائٹ ۱۹۳) کے ذریعہ روانگی ہوئی ۔ وقت پر جہاز کا گیٹ بند ہو گیا اور جہاز اپنا پر پھیلائے ہوئے رن وے پر چلنے لگا۔ اتنے میں کچھ ہندستانی مسافروں نے جہاز کے عملہ سے بحث شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری فیملی کا ایک آدمی باہر رہ گیا ہے اور ہمارا ٹکٹ اسی کے پاس ہے۔ کچھ دیر کی بحث کے بعد آخر کار جہاز دوبارہ گیٹ کی طرف واپس روانہ ہوا۔ آدمی کو تلاش کر کے اس کو دوبارہ اندر لاکر بٹھایا گیا۔ اس کے نتیجہ میں جہاز تقریباً دو گھنٹہ لیٹ ہو گیا۔

 یہ سطحیت اور نادانی کی ایک مثال ہے۔ اس قسم کی سطحیت اگر ایک آدمی اپنی ذاتی زندگی میں کرے تو وہ حماقت ہے ، وہ جرم نہیں ہے۔ مگر اجتماعی زندگی میں اس طرح کی سطحیت ایک سنگین جرم بن جاتی ہے ۔ کیوں کہ اجتماعی زندگی میں ایسی سطحی حرکت کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

جہاز کے اندر امریکی میگزین نیوز ویک(۱۲  مارچ ۱۹۹۰) دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے صفحہ ۵۰ پر ایک فرانسیسی خاتون گروٹ (Groult) کی کتاب پر تبصرہ تھا۔ اس میں کتاب کے حوالہ سے بتایا گیا تھا کہ فرانس میں تحریکِ نسواں (Feminism) مایوسی کے دور سے گزر رہی ہے۔ مثلاً کتابوں کے ناشرین نے تحریک نسواں کے متعلق لٹریچر چھاپنا بند کر دیا ہے ، کیوں کہ اس کی فروخت میں بہت کمی آگئی ہے:

Publishers have stopped printing feminist literature because of poor sales.

فرانس میں تحریک نسواں کی مشہور خاتون لیڈر بیور (Simone de Beauvoir) چارسال پہلے مرگئیں ۔ ان کے بعد کوئی خاتون لیڈر ابھر نہ سکی۔ فرانس کی تحریک نسواں کو زندہ رہنے کے لیے   ایک لیڈر کی تلاش ہے ۔ ایک فرانسیسی خاتون نے اس صورت حال پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کی عور تیں ایک غالب شوہر سے دور بھاگ سکی ہوں گی، مگر آخری چیز جو وہ چاہتی ہیں وہ دوسرا غالب ہے:

They may have escaped from a domineering husband

and the last thing they want is another dominator.

مرد کو اللہ تعالیٰ نے فعّال صفات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور عورت کو مُنفعل صفات کے ساتھ۔ دونوں صنفوں کے فریضہ ٔحیات کے اعتبار سے یہی فطری تقسیم ہے۔ مغرب میں اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر آخر کار فطرت غالب آئی۔ انسان کے خود ساختہ نظریات بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔

جہاز میں ایک صاحب آکر  میرے قریب کی خالی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ عملہ کے ایک آدمی نے ان کے بورڈنگ کارڈ کو دیکھ کر کہا کہ یہ اوپر کا درجہ ہے، آپ کا ٹکٹ اکانومی کلاس کا ہے ۔ اس لیے   آپ پیچھے کی سیٹ پر جائیں ۔ وہ صاحب نہایت اطمینان کے ساتھ اپنی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ دیر تک بحث کرنے کے بعد آخر کار وہ اٹھے اور جہاز کے آدمی کو بر ابھلا کہتے ہوئے دوسرے درجہ میں چلے گئے۔ موجودہ سیٹ پر بیٹھنے کے لیے   ان کی دلیل یہ تھی کہ وہاں تو کوئی شخص بیٹھا ہوا نہیں ہے:

Nobody is sitting here.

مسافر کو معلوم نہ تھا کہ اس دنیا میں کوئی سیٹ آدمی کو اس لیے   نہیں ملتی کہ وہ خالی ہے ۔ یہاں کوئی سیٹ آدمی کو ملتی ہے تو اس لیے   ملتی ہے کہ اس نے اس کی ضروری قیمت ادا کی ہے۔ جہاں دوسرے لوگ قیمت ادا کر کے بیٹھے ہیں وہاں آپ قیمت ادا کئے بغیر اپنے لیے   نشست نہیں پاسکتے۔ یہ زندگی کی ایک سادہ حقیقت ہے ۔ مگر بہت سے لوگ اس سادہ حقیقت کو نہیں جانتے۔

مارچ ۱۹۹۰ کی ۱۷ تاریخ ہے گھڑی میں دن کے ایک بجے ہیں ۔ ہمارا جہاز تقریباً ۳۰ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا ہے۔ میں نے جہاز کی کھڑکی کے باہر دیکھا تو سورج کی تیز روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ جہاز کے نیچے گہرے بادلوں کی تہیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس وقت اگر آپ نیچے زمین کی سطح پرکھڑے ہوئے ہوں تو آپ کو اپنے چاروں طرف اندھیرا پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ مگر عین اسی وقت بادلوں کےاوپر مکمل سورج اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمک رہا تھا۔

میں نے سوچا کہ اسی طرح زندگی کے مطالعہ کی بھی دوسطحیں ہیں۔ زندگی کے معاملہ کو ایک رخ سے دیکھئے تو آپ کو اپنے ماحول میں ہر طرف مشکلات کے اندھیرے پھیلے ہوئے دکھائی دیں گے۔ مگر ٹھیک اس وقت ایک اور سطح موجود ہوتی ہے، اگر آپ اس دوسری سطح سے دیکھیں تو زندگی روشن امکانات سے بھری ہوئی دکھائی دینے لگے گی۔

مثال کے طور پر جو لوگ آج مسلمانوں کے معاملہ کو مادی اور سیاسی اعتبار سے دیکھتے ہیں ان کومسلمان ہر طرف مشکلات و مسائل سے گھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ لیکن اگر ان کے معاملہ کو دعوتی امکانات کے نقطۂ نظر سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے   آج کی دنیا میں دعوت کے نئے شاندار مواقع کھل گئے ہیں جن کو استعمال کر کے وہ اسلام کا نیا مستقبل بنا سکتے ہیں، اور اسی کے ساتھ خود اپنا مستقبل بھی ۔ ایک زاویۂ نگاہ سے دیکھنے میں مسلمان تاریخ کا معمول نظر آتے ہیں۔ مگر دوسرے زاویۂ نگاہ سے دیکھئےتو مسلمان تاریخ کا عامل بننے کے مقام پر کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔

چھ گھنٹہ کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز کے اناؤنسر نے اپنے اعلان میں بتایا کہ سوف تحبط الطائرة (جلد ہی جہاز زمین پر اترے گا) اس جہاز کے کیپٹن (قائد الطیارہ )ایک عرب عصام الناصر تھے ۔ جہاز ایر پورٹ کے علاقہ میں داخل ہوا تو میں نے سوچاکہ دیکھوں وہ جہاز کوکس طرح اتارتے ہیں۔ کیوں کہ جہاز میں سب سے زیادہ مشکل کام لینڈنگ ہوتا ہے۔ بعض پائلٹ جہاز کو اس طرح اتارتے ہیں جیسے اس کو زمین پر گرا دیا جائے ۔مگر  عصام الناصر نے جہازکو اس طرح اتارا کہ کوئی جھٹکا نہیں لگا اور جہاز تقریباً  غیر محسوس طور پر زمین پر اتر کر دوڑنے لگا۔

ایران - عراق جنگ نے عرب ملکوں کی مالیات کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ مگر اس نقصان میں فائدے کے بھی کچھ پہلو ہیں۔ اس نے انھیں جگا دیا ہے۔ وہ اپنے نوجوانوں کو ہر قسم کی اعلیٰ تربیت دے رہے ہیں۔ تا کہ وہ بیرونی ملکوں کے ماہرین سےمستغنی  ہوسکیں۔

عمان ایئر پورٹ ایک چھوٹا ایئر پورٹ ہے مگر خوبصورت ہے۔ اس کا نام مطار الملكة علياء الدولی(Queen Alia International Airport) ہے۔ اسی طرح دہلی کے ہوائی اڈہ کا نام اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس طرح کا نام پسند نہیں۔ ہوائی اڈوں کےنام سادہ طور پر دہلی ائیر پورٹ یا عمان ایئر پورٹ ہونے چاہئیں۔

 ار دن ایک چھوٹا ملک ہے۔ اردن ائیر لائن بھی ایک چھوٹی ایئر لائن ہے ، مگر اس کی ہر چیزایئر انڈیا سے بہتر نظر آئی۔ اس کا راز یہ نہیں ہے کہ اردن ، ہندستان کے مقابلہ میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اردن کی ہر چیز مغربی ملکوں سے آئی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں وہ کرپشن نہیں ہے جو موجودہ ہندستان کی سب سے بڑی خصوصیت بن چکا ہے۔

 ہندستان ٹائمس (۱۲ اگست ۱۹۸۶ )کے صفحہ اول پر ایک روسی جہاز کی تصویر نمایاں طور پرچھپی ہوئی تھی ۔ اس تصویر کے نیچے حسب ذیل الفاظ درج تھے :

Prime Minister Rajiv Gandhi returned on a Soviet plane following engine trouble in the Air-India aircraft in which he left Prague for Delhi.

وزیر اعظم راجیو گاندھی ایک روسی جہاز سے واپس آئے۔ کیوں کہ ایئر انڈیا کے جہاز کے انجن میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جس میں وہ پراگ سے دہلی کے لیے   روانہ ہوئے تھے ۔ اس کے بعد اس واقعہ پر تبصرے شروع ہوئے۔ ہندستان ٹائمس (۱۸ اگست ۱۹۸۶ )صفحہ ۸ پر ایک تبصرہ میں کہا گیا تھا :

On one trip abroad the air-conditioning in the Prime Minister's plane fails. On another occasion something else in his aricraft fails and he is stuck on foreign soil for three hours. Now, due to a threat of fire in one engine his plane is diverted to Moscow and he returns home in a soviet aircraft. Is that the standard of maintenance of Air India?

ایک بیرونی سفر میں وزیر اعظم کے جہاز میں ائیر کنڈیشنگ کا نظام خراب ہو گیا ۔ ایک اور موقع پر ان کے جہاز میں کوئی اور خرابی پیدا ہو گئی اور وہ ایک بیرونی سرزمین میں تین گھنٹے کے لیے   رکنے پر مجبور ہو گئے۔ اب ان کے جہاز کے ایک انجن میں آگ لگنے کا خطرہ پیدا ہوا اور وہ ماسکو کی طرف موڑ دیا گیا اور وزیر اعظم ایک روسی جہاز میں دہلی واپس آئے ۔ کیا ایئر انڈیا میں کارکردگی کا معیار یہی ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ بہت سے چھوٹے ملکوں کا معیارِ کارکردگی ہندستان سے نمایاں طور پر بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ملکوں میں وہ کرپشن نہیں جو آج ہندستان کے ہر شعبہ میں آخری حد تک سرایت کر گیا ہے۔

ار دن ایک چھوٹا ملک ہے۔ ۱۹۶۷ کی جنگ میں اس کے رقبہ کا  ۶  فی صد حصہ اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا۔ یہ  ۶  فی صد حصہ اردن کی زرعی زمین کا ۵۰ فیصد حصہ تھا۔ عمان اردن کی راجدھانی ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ پور اشہر پہاڑیوں پر آباد ہے ۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے ۔ یہاں قبل مسیح زمانہ کے آثار اب تک کھنڈر کی صورت میں موجود ہیں۔ ۶۳۵ء میں یز ید بن ابی سفیان نے عمان کو فتح کرکے اس کو اسلامی مملکت میں شامل کیا تھا۔

اردن کے علاقہ میں تاریخی آثار بہت ہیں۔ مثلاً  اسی ملک میں بطرا (Petra) اور جراش واقع ہیں۔ یہاں قدیم سلطنتوں کے چھوڑے ہوئے نشانات پائے جاتے ہیں۔ ایک سیاح کے لیے   یہ مقامات صرف تفریح کے مقامات ہیں۔ مگر مومن کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ عبرت اور نصیحت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے : قُلۡ سِيرُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ ٱنظُرُواْ كَيۡفَ كَانَ ‌عَٰقِبَةُ ٱلۡمُكَذِّبِينَ [الأنعام: 11] اردن کے ایک میگزین میں ایک اشتہار دیکھا۔ اس میں عالمی سیاحوں کو ترغیب دلائی گئی تھی کہ وہ اردن آئیں اور یہاں کے تاریخی مناظر دیکھیں۔ اس کا عنوان تھا:

Discover Jordan: the jewel of the Middle East

اس مضمون میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے   خاص طور پر بطرہ کے سنگی مکانات کی تصویر یں دی گئی تھیں۔ قدیم زمانہ میں سنگ تراشی کی ایک صنعت پیدا ہوئی۔ اس کے تحت پہاڑوں کو تراش کر انھیں مکان کی صورت میں تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ بطرہ میں اسی قسم کی عمارتیں ہیں ۔ ایلورا اور اجنتا بھی اسی قسم کی سنگ تراشی کے نمونے ہیں۔

ایک عرب قبیلہ نے یہاں ایک سلطنت قائم کی تھی جن کو نبطی (Nabataeans) کہا جاتا ہے۔ یہ ۳۱۲ ق م کا واقعہ ہے۔ یہاں انھوں نے پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت مکانات بنائے اور اس کو اپنی راجدھانی قرار دیا۔ رومیوں نے اس کو ۱۰۶ ء میں فتح کیا۔ ۶۳۵ء میں وہ اسلامی علاقہ میں شامل کیا گیا۔

 مغربی مورخین جب اس کا ذکر کرتے ہیں تو وہ رومیوں کے تذکرہ کے ذیل میں رومی عہد(Roman times) کا لفظ لکھتے ہیں ، اور مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کے لیے   اسلامی حملہ (Islamic invasion) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ فرق یا شبہہ قابل شکایت ہے۔ مگر بد قسمتی سے مسلمان جب اپنی تاریخ اور دوسروں کی تاریخ پر لکھتے ہیں تو وہ بھی اسی طرح دہرا انداز اختیار کرتے ہیں۔ایسی حالت میں کم از کم مسلمانوں کو اس شکایت کا حق نہیں ۔

اردن کی آمدنی کا ایک خاص ذریعہ سیاحت ہے۔ اور سیاحوں کے لیے   یہاں سب سے زیادہ پرکشش چیز بطرا و غیرہ کے قدیم آثار ہیں۔ یہ آثار جو تاریخی اور اقتصادی دونوں اعتبار سے اتنے قیمتی ہیں ، ان کو پہلی بار سوئزرلینڈ کے ایک سیاح بر خارٹ (John Lewis Burckhardt) نے ۱۸۱۲ء میں دریافت کیا۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے   میں ایک یہودی روایت ہے جس کا تعلق اسی عمان (عمون)سے ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ –––––  داؤد نے بادشاہی محل کی چھت سے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی ۔ وہ نہایت خوبصورت تھی۔ داؤد نے اس عورت کو اپنے محل میں بلایا اور اس سے صحبت کی ۔ اس کے بعد وہ حاملہ ہو گئی۔ اب داؤد نے اس عورت کے شو ہر حتی اور یاہ کو عمون کی جنگ میں بھیج دیا اور سردار فوج سے کہا کہ اس کو گھمسان میں سب سے آگے رکھنا اور تم اس کے پاس سے ہٹ جانا تا کہ وہ مارا جائے۔ چنانچہ حتی اور یاہ مارا گیا اور پھر وہ عورت داؤد کی بیوی ہو گئی۔ اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ۔ پر اس کام سے جسے داؤد نے کیا تھا خداوند ناراض ہوا ( ۲ ۔ سموئیل باب  ۱۱ )حضرت داؤد کے یہی فرزند ہیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کہے جاتے ہیں۔

یہ لغو قصہ قرآن (ص: ۲۳) کے تحت خود ہماری تفسیروں میں بھی آگیا ہے۔ مفسرین نے اس پر لمبی بحثیں کی ہیں۔ چنانچہ مستشرقین کو موقع مل گیا کہ وہ اس کو قرآن کے ساتھ منسوب کر دیں۔ ایک مستشرق نے لکھا ہے کہ داؤد نے اور یا حتی کو ایک جنگ میں قلعہ کی دیوار تک بھیج دیا تاکہ وہ مارا جائے اور وہ اس کی بیوی سے نکاح کر سکیں۔ یہ واقعہ مسلم کہانیوں کا بھی ایک حصہ ہے :

....the incident is also a part of Muslim folklore (1/317)

عمان کی آبادی تقریباً  ۶  لاکھ ہے ۔

۴۹ - ۱۹۴۸ میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ ہوئی، اس کے بعد فلسطینی پناہ گزیں عمان میں آنے لگے۔ ۱۹۶۷ کی جنگ کے بعد دریائے اردن کے مغرب کا پور اعلاقہ اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب فلسطینی پناہ گزین کی تعداد بہت بڑھ گئی ۔ عمان جو پہلے ایک چھوٹا سا قصبہ تھا،اب بہت بڑا شہر بن گیا۔

غالباً ۱۹۶۹ کی بات ہے۔ میری ملاقات اردن کے ایک فلسطینی سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اردن میں ہماری طاقت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہم جب چاہیں اردن کی حکومت پر قبضہ کر لیں ۔ فلسطینیوں کا یہی ذہن تھا جس کی بنا پر ۱۹۷۰  میں فلسطینیوں اور حکومت اردن کے درمیان باقاعدہ سول وار چھڑ گئی ۔ اردن نے نہایت فیاضی کے ساتھ فلسطینیوں کو اپنا مہمان بنایا تھا۔ مگرجب یہ نوبت آئی تو حکومت نے نہایت سختی کے ساتھ ان کو کچل دیا۔ حتی کہ فلسطینی کیمپوں پر بمباری کی گئی۔

ہر آدمی کی ایک حد ہے۔ آدمی اگر اپنی حد پر رہے تو اس کو ہر جگہ کام کے مواقع ملتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنی حد سے آگے بڑھ جائے تو اس کو ہر جگہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ کسی مسلم ملک میں ہو یا غیر مسلم ملک میں۔

عمان سے طرابلس کے لیے   اردن ایئر لائنر کی فلائٹ نمبر ۱۴۵ کے ذریعہ روانگی ہوئی ۔ راستہ میں جہاز کے اندر ایک فلسطینی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام ناصر عبد الفتاح عامر بتا یا۔ ان کی عمر تقریباً  ۲۱ سال تھی ۔ ان کا خاندان غزہ (فلسطین) میں رہتا ہے۔ فلسطین کے بارے   میں انھوں نے بہت سی باتیں بتائیں۔ آخر میں میں نے پوچھا کہ فلسطین کے مستقبل کے بارے   میں آپ کیا امید رکھتے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا : تحریر أرض فلسطین و أن أرى بلادي تنعم تحت حکم إسلامی ( سرز مین فلسطین کی آزادی، اور یہ کہ میں اپنے ملک کو اسلامی حکومت کے تحت خوش حال ہوتا ہو ا دیکھوں)

 فلسطین کے مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں اپنا بہت کچھ کھو دیا ہے، مگر انھوں نے اپنا حوصلہ نہیں کھویا ۔ اور حوصلہ بلاشبہ کسی قوم کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

اس جہاز میں اردن ایئر لائنر کا انگریزی میگزین رائل ونگ (Royal Wings) کوالٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ۔ اس میں ایک مضمون چھٹی حِس (sixth sense) سے متعلق تھا۔ اس میں مختلف نمبر لکھے ہوئے تھے۔ اور ہر نبی کو دیکھنے سے ایک متعین جو اب نکلتا تھا۔ میں نے سرسری طور پر نمبر۲۰  کو دیکھا ۔ اس نمبر کےتحت حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ملے:

You are blessed with a remarkable ability.

Your powers are alert and working for you.

Don't be afraid of your "sixth sense" but explore it.

میں اس قسم کی چیزوں میں عقیدہ نہیں رکھتا۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس نوعیت کے مجھے کئی عجیب تجربے ہوئے ہیں۔ مثلاً مجھے یاد ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے زمانہ میں وہاں کے کتب خانہ میں مصر کا ایک عربی مجلہ  المقتطف آتا تھا جس کو میں دل چسپی سے پڑھا کرتا تھا ۔ ایک بار المقتطف میں اسی قسم کا ایک مضمون آیا ۔ اس میں ایک طلسماتی لفظ "ابرا کا دابیسن کا تن " کو پڑھ کر خاص انداز سے اپنے بارے   میں کوئی جواب معلوم کیا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں میرا امتحان قریب تھا۔ میں نے اسی کے بارے   میں معلوم کیا جواب آیا : ستنجح نجاحاً كبيراً  (تم ایک بڑی کامیابی حاصل کرو گے )عجیب بات ہے کہ اس کے بعد امتحان ہوا تو میں پورے درجہ میں اوّل آیا۔ اس وقت ہمارے درجہ میں غالباً ۲۴طالب علم تھے۔

 اردن ائیر لائنز کا عربی میگزین " الأجنحة" کے نام سے نکلتا ہے۔ اس کے شمارہ آذار ۱۹۹۰ ( صفحہ ۵۸ ) میں ایک عرب خاتون لیما نبیل کا ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا : غرناطة الفردوس المفقود ( غرناطہ ، فردوس گمشده)

موصوفہ سیاح کے طور پر غرناطہ گئیں ۔ وہاں انھوں نے عرب عہد کے آثار کو دیکھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ غرناطہ میں میں نے عرب تاریخ کو اپنے سامنے پایا اور اپنے ماضی کی عظمت کا مشاہدہ کیا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر وہ رو پڑیں۔ وہ وہاں کے ایک ایک پتھر سے پوچھتی رہیں کہ یہاں عرب کی عظمت تھی اور یہیں سے پانچ سو سال پہلے عرب کی ذلت شروع ہوئی (ھنا كان المجد العربي وهنــا أيضاً بدأ الذل العربى قبل خمس مائة عام)

وہ جذ باتی انداز میں لکھتی ہیں کہ عربوں نے یہاں اپنے قلعوں اور محلوں اور مسجدوں کو چھوڑ دیا۔ وہ اس شہر سے عورتوں کی طرح روتے ہوئے نکلے۔ وہ مردوں کی طرح اس کی حفاظت نہ کر سکے (ترکوا قِلَاعَهُم وقُصورَهم وَمَسَاجِدَهُم - خَرَجُوا مِنْ هَذِهِ الْمَدِينَةِ يَبْكُون مِثْل النِّسَاء – مِلْكًا لَم يحافظوا عَلَيْهِ مِثْلُ الرِّجَالِ - وَخَرَجْتُ مِنْ غــرناطــة أُطَأْطِئُ رأسی - وَأَسْأَل نَفْسِى إلَى مَتَى سَيَسْتَمِرُّ هَذَا اللَّيْلُ الْعَرَبِيّ وَمَاذَا سَيَكتُبُ التَّارِيخُ عَنَّا(

عرب خاتون نے اپنے اس تاثراتی جملہ میں غرناطہ کے آخری سلطان کی ماں کے قول کو دہرایا ہے ۔ مگر یہ سادہ معنوں میں مرد اور عورت کا مسئلہ نہیں ۔ یہ قومی استعداد کا مسئلہ ہے ۔ ۷۹۹ امیں ٹیپو مرد کی جنگ لڑے مگر وہ ہار گئے۔ ۱۹۷۱  میں اندرا گاندھی ایک عورت تھی مگر وہ پاکستان کے مقابلہ میں جیت گئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مرد اور عورت کا معاملہ نہیں، بلکہ قومی استعداد اور حالات کا معاملہ ہے۔ اگر حالات موافقت نہ کر رہے ہوں تو کوئی شخص خواہ کتنی ہی زیادہ بہادری کے ساتھ لڑے، وہ مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

جہاز کا بیشتر سفرخشکی کے اوپر ہوا ۔ بالائی فضا میں پرواز کرتا ہوا ہمارا جہاز ہندستانی وقت کے لحاظ سے پانچ بجے بحر روم کے اوپر پہنچ گیا۔ اس کے سفر کونہ خشکی کی پستی اور بلندی نے روکا ، اور نہ سمندر اس کی راہ میں حائل ہوا۔ وہ شہری آبادیوں کے اوپر سے بھی اسی طرح تیزی سے گزر گیا جس طرح کھلے میدانوں کے اوپر سے ۔

بے شمار لوگ روزانہ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ مگر مسافروں کے چہرے اور ان کی گفتگوئیں بتاتی ہیں کہ اس قدرتی معجزہ کو سوچ کر کسی کے اندر تموج کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان، دونوں قسم کے لوگ ہوائی جہاز کا سفر تو کر رہے ہیں، مگر ہوائی جہاز کے سفر کے دوران ان کا شعور ربّانی مسافت طے نہیں کرتا۔ ان کا حال تقریباً اس چوپایہ کا سا ہے جس کو ایک مقام پر جہاز میں بیٹھا یا جائے اور لے جا کر اس کو دوسرے مقام پر اتار دیا جائے۔

اردو کے ایک مرثیہ گونے قدیم زمانہ میں حضرت حسین اور ان کے خاندان کے لوگوں کے سفر کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین کو مختصر کر کے ان کا راستہ آسان بنا دو :

طنابیں کھینچ کر کم کر زمیں کو            کہ ہو وے راہ کم ان مہ جبیں کو

آج اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لیے   زمین کی طنا بیں کھینچ کر سفر کو مختصر بنا دیا ہے ۔ مگر قرآن کے مطابق انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو قابلِ شکر باتوں کو شدت کے ساتھ محسوس کریں اور شکرکے جذبات سے سرشار ہو جائیں (سبا: ۱۳)

ہوائی جہاز کی سواری آج بہت زیادہ عام ہو چکی ہے، اس لیے   لوگوں کو اس کے غیر معمولی پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہوائی جہاز نے آج لمبے سفروں کو ہر آدمی کے لیے   ممکن بنا دیا ہے۔ ورنہ قدیم زمانہ میں بہت ہی کم افراد لمبے سفر کا حوصلہ کر سکتے تھے۔

لارڈ کرزن ایک بے حد امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ انیسویں صدی کے آخر میں ہندستان کا بڑے جاہ وجلال کا وائسرائے بنا۔ مگر ۱۸۹۸ء میں جب وہ ہندستان کا وائسرائے ہو کر روانہ ہوا تو لندن سے کلکتہ تک کا سفر طے کرنے میں اس کو سترہ دن لگ گئے۔ اس وقت تک ہوائی جہاز کا سفر رائج نہیں ہوا تھا۔ آج ایک عام آدمی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چند گھنٹوں میں ایک ملک سےدوسرے ملک اور ایک برِّاعظم سے دوسرے برِّ اعظم میں پہنچ جاتا ہے۔

۱۷ مارچ کو میں نے فجر کی نماز دہلی کے ہوائی اڈہ پر پڑھی تھی۔ اسی دن میں عصر کی نماز کے وقت طرابلس کے ہوائی اڈہ پر اتر گیا۔ موجودہ زمانہ میں تیز رفتار سواریوں نے سفر کے معاملہ کو کتنا زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ ہوائی جہاز اپنے اندر سیکڑوں مسافروں کو بیٹھا کر ہوا میں اڑتا ہے اور خشکی اور پہاڑ اور سمندر کی ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ لوگوں کو ان کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ یہ کتنا حیرت ناک واقعہ ہے۔ آج بے شمار لوگ اس سفری سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر ان میں شاید ہی کوئی ہو جس کا حال یہ ہو کہ خدا کی اس عظیم نعمت کو سوچ کر اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور وہ استعجاب (awe) کے سمندر میں غرق ہو کر کہہ اٹھے : فبأی آلاء ربكما تكذّبان فلپائن کے ایک صاحب ( احمد نوح) سے ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے بتا یا کہ فلپائن میں سات ملین مسلمان ہیں۔ مسلمان تعلیمی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں۔ حتی ٰکہ ان کے بیان کےمطابق سارے فلپائن میں ایک بھی مسلمانوں کا پریس موجود نہیں۔

فلپائن کے ایک علاقے میں مسلمان آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس تحریک آزادی کے لیڈر پہلے صرف مسٹر نور میسواری تھے۔ ہاشم سلامات ان کے نائب تھے ۔ اب دونوں میں سخت اختلاف ہو گیا ہے۔ دونوں الگ الگ اپنی تحریکیں چلا رہے ہیں ۔ احمد نوح صاحب دونوں لیڈروں سے ملے۔ انھوں نے نور میسواری سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی سیاست کو نہ بدلا تو انقلاب ناکام ہو جائے گا۔ ( إنْ لَمْ تُغَيِّرْ سِياسَتَكَ الْآن فالثَّورَةُ سَتَفْشَلْ ( مگر دونوں کو متحد کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔

ان کی گفتگو سے میں نے اندازہ کیا کہ فلپائن کے دونوں لیڈر اگر چہ اپنے اختلاف اور علاحدگی کے لیے   اصولی الفاظ بولتے ہیں ، مگر اصلاً  یہ قیادت کا جھگڑا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ و ہی جھگڑا ہے جو ہندستان سمیت تمام ملکوں میں پیش آرہا ہے۔ لوگ اسلام کے نام پر اٹھتے ہیں۔کام شروع کرتے ہیں۔ مگر جلد ہی بعد ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کی سرگرمیاں حقیقۃ ً  اسلام کے لیے   ہو تیں تو اختلاف کے وقت ایک شخص پیچھے ہو جاتا اور پھر اختلاف اپنے آپ ختم ہو جاتا ۔ مگر جب اصل مقصد لیڈری ہو اور اسلام کا نام محض نعرہ کے طور پر استعمال کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہی پیش آتا ہے۔

طرابلس میں میرا قیام فندق المھاری (کمرہ ۷۱۲ ) میں تھا۔ یہ ہوٹل بحر روم کے کنارے واقع ہے۔ ایک طرف خشکی کے مناظر ہیں ، اور دوسری طرف سمندر کی موجیں حد نظر تک متحرک نظر آتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کیسا عجیب احسان ہے۔ انسان کو پانی کی ضرورت تھی۔ پانی کو اگر سطح ارض پر پھپلا دیا جاتا تو انسان کے لیے   رہنے کی جگہ باقی نہ رہتی۔ اللہ تعالی نے زمین میں بڑی بڑی گہرائیاں پیدا کیں اور ان میں پانی کو بھر دیا ۔ مزید یہ کہ اس پانی میں نمک کا جزء شامل کر دیا تا کہ وہ کبھی خراب نہ ہونے پائے۔ اس سمندر کے بے شمار فائدے ہیں جن کو کسی انسائیکلو پیڈیا میں بھی شمار کر نا ممکن نہیں۔ آدمی اگر اس معاملہ کا احساس کرے تو اس کے سینہ میں وہی تلاطم مزید شدت کے ساتھ پیدا ہو جائے جو سمندرکی سطح پر ہر آن جاری رہتا ہے۔

 اس ہوٹل میں ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے عین سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک خوبصورت مسجد تھی ۔ اذان کی آواز کمرہ تک پہنچتی تھی ۔ اور یہ ممکن تھا کہ بآسانی وہاں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کی جاسکے۔ دنیا کے ساتھ دین کا یہ جوڑ اگر مسلمان کی پوری زندگی میں آجائے تو زندگی ہر اعتبار سےکتنی بہتر ہو جائے۔

سفر کے دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ میں جو نئے وسائل انسان کے قبضہ میں دیے ہیں ، وہ ابھی تک دین کی اشاعت کے لیے   استعمال نہ ہو سکے ۔ مثال کے طور پر ہوائی جہاز نے سفر کو کتنا زیادہ تیز رفتار بنا دیا ہے ، مگر وہ عام طور پر صرف دنیوی اعراض کے لیے   استعمال ہو رہا ہے۔

مذکورہ بزرگ نے ایک "عالمی تحفظ نبوت کانفرنس "میں شرکت کی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ آپ ایسا کس طرح کہتے ہیں۔ دیکھئے فلاں مقام پر مسلمانوں نے بڑے پیمانہ پر تحفظ نبوت کانفرنس کی۔ اس میں ساری دنیا کے مسلم علماء جمع ہوئے۔ اگر ہوائی جہاز کا استعمال نہ کیا جاتا تو اتنی وسیع انداز کی عالمی کانفرنس منعقد کرنا ممکن نہ ہوتا۔

میں نے کہا کہ" تحفظ نبوت کانفرنس "کو میں کوئی اسلامی کا م نہیں سمجھتا۔ اس پر وہ حیرت میں پڑ گئے۔ میں نے کہا کہ اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری تو خود خدا نے لے لی ہے۔ اس دین کو لانےوالے پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے ابدی طور پر مقامِ تعریف (مقام محمود) پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس کی حفاظت آپ کیا کریں گے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام آپ کے تحفظ سے مستغنی ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ" تحفظ نبوت کانفرنس "کرنا اتناہی بے معنی ہے جتنا "تحفظ آفتاب کا نفرنس" کرنا۔ پیغمبر اسلام کو اس کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ان کا تحفظ کریں۔ پیغمبر اسلام کے امتی ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ آپ کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائیں ۔بَلِّغُوا ‌عَنِّي ‌وَلَوْ ‌آيَةً(صحيح البخاري، 3461 )آج مسلمانوں کی ذمہ داری اشاعت ِنبوت ہے نہ کہ تحفظِ نبوت ۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جو کرنا ہے اس کو کرتے نہیں ، اور جو نہیں کرنا ہے اس کے لیے   دوڑتے ہیں۔

اس سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔ ایک عرب نوجوان نے ۱۸ مارچ کی ملاقات میں بڑی عجیب بات بتائی۔ انھوں نے راقم الحروف کی عربی کتا بیں پڑھی ہیں اور الرسالہ مشن سے واقف ہیں۔ تاہم وہ میرے احوال اور میری مشکلات سے مکمل طور پر نا واقف تھے ، انھیں کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ میرے خلاف لوگوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ حتی کہ مجھے" اہانتِ امت "کی سزا دینے کا فتوی دیا جارہا ہے۔

مذکورہ عرب نوجوان نے بتایا کہ فروری  ۱۹۹۰  میں انھوں نے ایک خواب دیکھا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ میرے ساتھ ایک مکان میں ہیں۔ ہم لوگ سخت خطرے میں گھرے ہوئے ہیں اور بے حد پریشان ہیں۔ اس دوران مذکورہ عرب نوجوان گھر سے باہر نکلے تاکہ حالات کا اندازہ کریں ۔ اتنے میں انھوں نے دیکھا کہ سامنے کی سڑک سے حضرت عمرفاروق گزر رہے ہیں۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے آگے نکل گئے ۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق وہاں سے گزرے ۔ وہ وہاں ٹھہر گئے اور مذکورہ عرب نوجوان سے کہا :

قُلْ لِوَحِيدُ الدِّينْ وَأَصْحَابَهُ ، أَخْرِجُوا وَلَا تَخَافُوا ، أَنْتُمْ فِي حِمَايَةِ اللَّهِ

ایک اور عرب جنھوں نے اپنا نام العیسا وی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کی اکثر عربی مطبوعات پڑھی ہیں ۔ میں نے کہا کہ ہمارے مشن کا خلاصہ آپ نے کیا سمجھا ہے ۔ انھوں نے کہا: ھذہ الرِّسَالَة تُقَدِّمُ الهَدَفَ الأسَاسِى لِلْإِنْسَان - نَحْن مَخْلُوقُون لِلْآخِرَة ، وَالْأُمُورَ الْأُخْرَى تَخْضَعُ لِلْأَحْوَالِ والظُّرُوْفِ ۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے خود اس سے کیا تا ثر لیا۔ ان کا جواب یہ تھا : حَوَّلْتَنِىْ مِنْ مُسْلِمٍ مَادِّیٍ الی مُسْلِم صَرْف  ۔یعنی اس نے مجھے مادی سوچ والے مسلمان سےبدل کر خالص مسلمان بنا دیا۔

کئی عربوں نے میرے بارے   میں اور اسلامی مرکز کے مشن کے بارے   میں اپنے خواب بتائے جو نہایت عجیب اور بظاہر نا قابل قیاس تھے۔ مثلاً ایک عرب نوجوان نے کہا کہ میں نے آپ کو خواب میں دیکھا۔ خواب میں آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس عربی لباس نہیں۔ اس پر عرب نوجوان نے کہا کہ میرے پاس دو عربی لباس ہیں۔ ان میں سے ایک میں آپ کو دے دیتا ہوں۔

 ایک اور عرب نے بتایا کہ خواب میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں نے ان سے جو گفتگو کی وہ انگریزی زبان میں تھی۔ میں نے انگریزی داں قوموں میں اسلام کی اشاعت کی ضرورت پر زور دیا۔ وغیرہ۔

پاکستان کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ فکری تطہیر کا کام تو بہت اچھا کر رہے ہیں، مگر عملی انقلاب کے لیے   ابھی تک آپ نے کوئی پروگرام شروع نہیں کیا۔

میں نے کہا کہ "عملی انقلاب" نتیجہ کا نام ہے نہ کہ کوشش کا۔ میں نے کہا کہ ہر انقلاب در اصل حالات کے انفجار کا نام ہے۔ مثلاً ایران کا انقلاب اینٹی شاہ جذبات کے ابل پڑنے کا نام تھا۔ وہ تمام واقعات جن کو انقلاب کہا جاتا ہے ، ان کی صورت یہی تھی کہ رائج الوقت نظام کے خلاف ناراضی پیدا ہوئی۔ یہ ناراضی اندر اندر پکتی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ تخریبی لا وا کی صورت میں ابل پڑی۔

تمام انقلابات تخریبی لاوا کے ابل پڑنے کے نتیجہ میں ظہور میں آئے ہیں ۔ تاریخ میں ایک ہی انقلاب اس سے مستثنی ہے، اور وہ پیغمبرِ اسلام کا انقلاب ہے ۔ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا انقلاب بھی ایک لاوا کے پھٹنے سے ظہور میں آیا۔ مگر یہ تعمیری لاوا تھا ، نہ کہ دوسرے انقلابات کی طرح تخریبی لاوا ۔

پیغمبر اسلام کے انداز کا انقلاب لانے کے لیے   تعمیری لاوا تیار کرنا ہوتا ہے ۔ اور یہ صرف تعمیر ِشعور کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ الرسا لہ مشن اس وقت یہی کام کر رہا ہے ۔ یہ مشن گویا ایک تعمیری لاوا پکا رہا ہے۔ جس دن یہ لاوا پک کر تیار ہو گا وہ اپنے آپ پھٹ پڑے گا۔ مگر اس کا پھٹنا خاموش تعمیری انقلاب کی صورت میں ہوگا نہ کہ پر شور تخریب کاری کی صورت میں جس کے نمونے آج جگہ جگہ نظرآرہے ہیں۔ (باقی)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom