بے ترتیب نماز

ایک شخص اگر ایسا کرے کہ وہ نماز پہلے پڑھ لے اور وضو اس کے بعد کرے تو ایسے آدمی کو نماز پڑھنے والا نہیں کہا جائے گا، شریعت کی نظر میں وہ ایک سرکش آدمی ہے نہ کہ نمازی آدمی ۔ اگر کوئی شخص اس قسم کی بے ترتیب نماز پڑھے تو اگرچہ وہ بظا ہر نماز کے تمام اجزاء کو دہرارہا ہوگا مگر اس کی بے ترتیبی اس کی نماز کو باطل کر دے گی ۔ کوئی بھی عالم یا فقیہ اس کو نمازی تسلیم نہیں کرے گا۔

دنیا میں آپ کو ایسا کوئی مسلمان نہیں ملے گا جو اس قسم کی بے ترتیب نماز پڑھے۔ کیوں کہ وہ نماز کے معاملہ میں اس مسئلہ کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ ایسی بے ترتیب نماز خدا کے یہاں قبول ہونے والی نہیں۔ مگر ایک اور معاملہ میں ہر جگہ کے مسلمان اسی قسم کی" نماز "پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے "نماز "پڑھ لیں ، اور اس کے بعد" وضو " کریں۔ اس تبدیلی (یا تحریف) کے باوجود ان کو مجاہد اسلام کا خطاب مل رہا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اعلان کے مطابق ، اسلامی حکومت یا اسلامی نظام قائم کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھاکہ پہلے آپ نے لمبی مدت تک رات دن محنت کر کے لوگوں کا ذہن بنایا ۔ اس کے بعد اسلامی قانون کا نفاذ کیا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مجاہدین اسلام اس کے بر عکس یہ چاہتے ہیں کہ پہلے حکومت پر قبضہ کریں ، اس کے بعد افراد کا ذہن بنائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ملک حاصل کرو ، اس کے بعد اسلامی زندگی کی تعمیر کرو۔ پہلے فاسد حکمراں کو ہلاک کرو ، اس کے بعد صالح قیادت پیدا کرو۔ پہلے سینما ہاؤس کی عمارت کو توڑو ، اس کے بعد سینما بینی کا خاتمہ کرو ۔ پہلے سیاسی تبدیلی لے آؤ، اس کے بعد افراد کا ذہن بدلو۔ پہلے وزارتِ اعلام پر قبضہ کرو، اس کے بعدوسائل اعلام کو اسلام کے لیے استعمال کرو۔

اس قسم کی تمام کارروائیاں" پہلے نماز اور اس کے بعد وضوء" کی مصداق ہیں ۔ معروف نماز کی ترتیب چونکہ تسلسل کے ساتھ زمانہ ٔنبوت سے چلی آرہی ہے ، اس لیے تسلسل اور تو اتر نے اس کی ہیئت کو لوگوں کی نظر میں اٹل بنا دیا ہے ۔ وہ اس کے خلاف سوچنے کی جرٲت نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس اسلامی حکومت کے قیام کے بارے میں اس قسم کا عملی تواتر یا مسلسل مشاہدہ موجود نہیں۔ اس لیے اس کی ترتیب کا معاملہ لوگوں کو اس طرح اٹل نظر نہیں آتا جیساکہ نماز کا نظر آتا ہے۔ حالاں کہ شرعی حکم یا سنت رسول ہونے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔

"پہلے اقتدار اور اس کے بعد ذہن سازی" کا نظریہ اگر صحیح ہوتا توخدا کے تمام پیغمبرسب سے پہلےاس نظریہ پر عمل کرتے ۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ مواقع ملنے کے باوجود انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے لوگوں کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی کہ اگر آپ اپنی اس دعوت کے ذریعہ حکومت کے طالب ہیں تو ہم آپ کو اپنے اوپر حاکم بنالیتے ہیں (و إن كنت تريد به ملكا ملكناك علينا،سيرة ابن ہشام ، الجز ء الاول صفحہ ۳۱۵) مگر آپ نے حکومت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ اقتدارسے الگ رہ کر توحید اور آخرت کے عقیدہ کو لوگوں کے دلوں میں داخل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہی واقعہ ایک اور شکل میں پیش آیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصرمیں مبعوث کیا۔ وہاں آپ نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی ۔ لمبے عرصہ تک آپ جد و جہد کرتے رہے۔ مگر فرعون نے آپ کی دعوت قبول نہ کی۔ یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں وہ قابل سزا ٹھہرا۔ اس کےبعد فرعون اور اس کا پورالشکر سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ فرعون کی فوجی طاقت مکمل طور پر ختم ہوگئی ۔

 اب حضرت موسیٰ کے لیے موقع تھا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ لوٹ آئیں اور مصر کے خالی تخت پر بیٹھ جائیں۔وہ مصر کے شاہی محل اور اس کے ایوانِ حکومت پر قبضہ کر لیں۔ اس طرح اقتدار حاصل کر لینے کے بعد وہ مصر کے لوگوں کا یا بنی اسرائیل کا ذہن بدلنے کا کام کریں۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا ۔ مصر میں سیاسی قبضہ کے مواقع ہونے کے باوجود وہ مصر کو چھوڑ کر صحرائے سینا میں چلے گئے   ۔ اور وہاں دعوتی انداز میں بنی اسرائیل کی اصلاح و تربیت کا کام کرتے رہے ۔ تربیت کا یہ کام جب ۴۰ سال میں مکمل ہو گیا ، اس وقت بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں سیاسی اور فوجی اقدام کیا ، اورغساسنہ کو مغلوب کر کے شام و فلسطین پر اپنی حکومت قائم کی ۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ریڈیو اور ٹیلی وژن جیسی چیزوں کی ایجاد نے ہمارے لیے نئے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ یہ ذہن سازی کے نہایت وسیع اور کارگر ذرائع ہیں ۔ مگر ان کو استعمال کرنے کے لیے اقتدار کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے آج کی ضرورت یہ ہے کہ پہلے اقتدار پر قبضہ کر لیا جائے ، اس کے بعد نیوز میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کو استعمال کر کے عوام کی دینی تربیت کی جائے ۔ اس طرح خود ذہن سازی کے کام کا تقاضا ہے کہ پہلے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا جائے تاکہ تربیت عوام کے اس موثر ذریعہ کو اسلام کے حق میں استعمال کیا جاسکے ۔

 مگر یہ محض خوبصورت الفاظ ہیں ۔ اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح وضو اورنماز کی ترتیب ابدی ہے اسی طرح ذہنی انقلاب اور حکومتی انقلاب کی ترتیب بھی ابدی ہے ۔ دور اوّل میں جس طرح انقلاب لایا گیا ، بعد کے دور میں بھی اگر انقلاب لایا جا سکتا ہے تو اسی طرح لایا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا دوسرا ہر طریقہ وقت کا ضیاع ہے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔

 تجربات اس نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل محمد ضیا ء الحق  نے ۱۹۷۷ میں پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اور ساڑھے گیارہ سال کی طویل مدت تک پاکستان کے مطابق حکمراں بنے رہے۔ پاکستان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد، دوسری بہت سی کارروائیوں کے علاوہ انھوں نے یہ کیا کہ ایک اسلام پسند لیڈر( محمود اعظم فاروقی) کو اطلاعات و نشریات کے محکمہ کا وزیر بنا دیا ۔

اس کے بعد وہ مہم پوری طرح جاری کر دی گئی جس کو میڈیا کے ذریعہ عوام کی دینی تربیت کہا جاتا ہے۔مگر طویل کوشش کے باوجود اس کا ایک فی صد فائدہ بھی حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان کا معاشرہ مزید بگڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق  صاحب کی موت کے بعد پاکستان کا جو پہلا الیکشن (نومبر ۱۹۸۸) ہوا، اس میں پاکستان کے عوام نے اسلامی نظام کے حامیوں کو چھوڑ کر ان لوگوں کو مرکزی اقتدار پر بیٹھا دیا جو بالاعلان طور پر سیکولر نظام کے حامی تھے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom