نفرت، محبت
روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے اصحاب بھی وہاں موجود تھے ۔ اتنے میں ایک اعرابی (دیہاتی گنوار ) وہاں آیا ۔ وہ مسجد کے اندر ایک جگہ کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ اس کو پکڑنے اور مارنے کے لیے دوڑے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ اسے چھوڑ دو ۔ جب اعرابی پیشاب کر چکا تو آپ نے صحابہ سے کہا کہ ایک بالٹی پانی لو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا کر اس کو صاف کر دو ۔ اس کے بعد آپ نے اعرابی کو بلایا اور نرمی کے ساتھ اس سے کہا کہ دیکھو یہ مسجد ہے ۔ یہاں خدا کا ذکر اور عبادت کی جاتی ہے ۔ یہ بول و براز کرنےکی جگہ نہیں ۔
اعرابی پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا ۔ ابتدا میں اگر اس کا گنوار پن جا گا ہوا تھا تو اب اس کا ضمیر جاگ اٹھا۔ وہ اسی حالت میں اپنے قبیلہ میں واپس گیا۔ وہاں وہ دیوانہ وار لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ دیکھو، میں مدینہ گیا ۔ وہاں میں نے یہ گندا کام کیا کہ محمد کی مسجد میں پیشاب کر دیا۔ مگر انھوں نے صرف یہ کیا کہ جہاں میں نے گندا کیا تھا اس کو پانی سے دھو دیا ۔ خدا کی قسم محمد نے نہ مجھ کو جھڑ کا اور نہ وہ میرے او پر غصہ ہوئے (وَاَللّهِ مَا زَجَر نِي مُحمَّدٌ۔ وَاَللّهِ مَا قَهَرَنِیْ مُحَمَّدٌ ) اعرابی کا یہ کہنا اس کے قبیلہ والوں کے لیے اسلام کی تبلیغ بن گیا۔ چنانچہ پورا کا پورا قبیلہ اسلام کے دین میں داخل ہو گیا ۔ جس قبیلہ کے ایک آدمی نے مسجد میں آکر پیشاب کر دیا تھا، اسی قبیلہ کے تمام آدمی دوبارہ مسجد میں اس لیے آئے کہ مسجد کا احترام کریں اور اس میں ایک خدا کے آگے سجدہ کر کے اپنی اطاعت و فرماں برداری کا اظہار کریں ۔
یہ دور رسالت کا واقعہ ہے ۔ اب موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھئے ۔ ۱۸۳۱ میں سید احمد شہید بریلوی کو زبانی طور پر یہ خبر ملی کہ پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کی کچھ مسجدوں کو اصطبل بنا دیا ہے ۔ وہاں اس کے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں ۔ اس خبر کے بعد انھیں کسی مزید تحقیق کی ضرورت نہ تھی ۔ وہ بہت سے مسلمانوں کو لے کر پنجاب پہونچے اور رنجیت سنگھ کی فوجوں سے لڑگئے ۔ اس لڑائی میں ہزاروں مسلمان مارے گئے ۔ ایک تذکرہ نگار کے الفاظ میں ، پنجاب کی زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوگئی ۔
۱۸۵۷ کے غدر (یا جنگِ آزادی ) میں یہ واقعہ ہوا کہ مسلمان اس بات پر بھڑک اٹھے کہ انہیں وقت کے حکمرانوں کی طرف سے ایسے کارتوس دیئے گئے ہیں جن میں خنزیر کی چربی لگی ہوئی ہے۔ یا کچھ انگریز سپاہی اپنے گھوڑوں پر چڑھ کر کسی مسجد کے اندر داخل ہو گئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے انگریزوں سے جو لڑائی لڑی، اس میں لاکھوں مسلمان مارے گئے ۔ بے شمار مسلمانوں کا خون بہا ۔ مگر سب کچھ لا حاصل ، کیوں کہ جو صورت حال تھی، وہ بدستور مزید شدت کے ساتھ برقرار رہی۔
اس وقت سے لے کر اب تک لڑائی بھڑائی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان ہر طرف اپنا خون بہا رہے ہیں۔ غیر قوم کا کوئی شخص مسجد کی دیوار پر رنگ ڈالدے ۔ کوئی مسجد کے سامنے غلط نعرے لگا دے۔ کوئی جلوس با جابجاتا ہوا مسجد کی سڑک سے گزر جائے ۔ اس طرح کا کوئی واقعہ ہو تو مسلمان مشتعل ہو کر لڑ جاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان فساد ہوتا ہے ۔گولیاں چلتی ہیں۔ بے شمار لوگ مارے جاتے ہیں۔ اس طرح کے جھگڑے اور لڑائیوں میں مسلمانوں کا جو خون بہتا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کو ناپنے کے لیے بالٹی کی نہیں بلکہ ڈرم کی ضرورت ہوگی۔ مسلمانوں کے اپنے بیان کے مطابق سڑکوں پر مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ بستیاں مسلمانوں کےخون سے سرخ ہو رہی ہیں ۔
اب دیکھیے کہ یہ سارا خون جو بہایا جارہا ہے اس کا فائدہ کیا ہے ۔ کیا اس کی وجہ سے خدا کے بندے خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ سے اسلام کے دشمن اسلام کے دوست بن رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے کہ قومیں اور قبیلے اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی طاقت بن جائیں ۔
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے خون کا سیلاب ایک سو سال سے بھی زیادہ مدت سے بہہ رہا ہے۔ مگر کوئی بھی شخص نہیں جس کی روح کو خون کے اس دریا نے پاک کیا ہو ۔ کوئی ایک آدمی نہیں جو اس خون کی وجہ سے مسلمانوں کے دین میں داخل ہوا ہو۔ کوئی ایک قبیلہ نہیں جس نے مسلمانوں کے اس عمل کو دیکھ کر ایسا کیا ہو کہ وہ خدا کی نافرمانی کو چھوڑ کر خدا کا مومن ومسلم بن جائے۔
یہ فرق کیوں ہے ۔ دور رسالت میں پانی نے جو نتیجہ دکھایا تھا ، بعد کے دور میں خون بھی وہ نتیجہ نہ دکھا سکا ۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ رسول کا پانی محبت کا پانی تھا ۔ اور موجودہ مسلمانوں کا خون نفرت کا خون ہے ۔ رسول نے انسان کے اوپر معافی ، خیر خواہی ، شفقت اور مہربانی کی بارش برسائی تھی۔ اس کے برعکس آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ انسان کے اوپر نفرت اور غصہ اور اشتعال کا خون انڈیل رہے ہیں ۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دور اول کے عمل کا یہ نتیجہ پیدا کیا تھا کہ قو میں کی قومیں اور قبیلے کے قبیلے اسلام کے سایہ میں داخل ہو گئے۔ اسلام ساری دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ غالب دین بن گیا۔ اور موجودہ زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں حقیر ہو رہا ہے ، وہ ایک بلین مسلمانوں کے باوجود ساری دنیا میں کمزور اور مغلوب مذہب بنا ہوا ہے ۔
ہر آدمی کے اندر پیدائشی طور پر دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ ایک نفس لوّامہ (ضمیر) اور دوسرے، نفس امّاره (انانیت) ۔ یہ دونوں صلاحیتیں ابتدائی طور پر سوئی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ اب اگر آپ فریق ثانی کے نفس لوّ امہ کو جگائیں تو اس کی شخصیت کا انسانی جزء آپ کے حصہ میں آئے گا۔ اور اگر آپ فریق ثانی کے نفس امّارہ کو جگائیں تو اس کی شخصیت کا حیوانی جزء آپ کے حصہ میں آئے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ آپ آدمی کے وجود کے انسانی حصہ کو جگائیں ۔ اس لیے آپ نہ صرف اچھوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے بلکہ بروں کے ساتھ بھی آپ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے ۔ اس کی وجہ سے آدمی کی چھپی ہوئی فطرت جاگتی تھی ۔ اور آخر کار وہ اسلام قبول کر کے آپ کا ساتھی بن جاتا تھا۔
موجودہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل نہیں کرتے کہ بروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو ۔ وہ ہمیشہ رد ّعمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا طریقہ صرف فریق ثانی کی انانیت کو جگانے کا باعث بنتا ہے ۔ خدا کے بندوں کے لیے ان کے پاس " محبت کا پانی" نہیں، البتہ ان کے پاس" نفرت کا خون" کافی مقتدار میں موجود ہے ۔ جس کو وہ لوگوں کے اوپر انڈیلتے رہتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو خدا کے اس باغ میں صرف کانٹے ملیں گے ۔ وہ اس باغ کے پھولوں کے مالک نہیں بن سکتے۔ یہی قانونِ قدرت کا فیصلہ ہے ۔