احیاءِ قلب ، احیاء ِحکومت

انسانوں کے اندرجب بھی بگاڑ آتا ہے تو اس کی جڑ ہمیشہ قلب میں ہوتی ہے ۔ قلب کے بگاڑ سے زندگیاں بگڑ جاتی ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ کیا لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے قلب ہوتے جن سے وہ سمجھتے یا ان کے کان ہوتے جن سے وہ سنتے ۔ کیوں کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ وہ قلب اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں (الج ۴۶)

 یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے کہ سن لو کہ انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے ، اور وہ قلب ہے (أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ ‌مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ ( بخاری، 52مسلم، 1599(

جب ہرقسم کے انسانی بگاڑ کا سر چشمہ قلب ہے تو ہر بگاڑ کے موقع پر ہمیشہ اصلاح کا آغاز قلب کی اصلاح سے ہونا چاہیے   ۔ اس سلسلہ میں قرآن کی اس آیت کا مطالعہ کیجیے :

کیا ایمان والوں کے لیے   وقت نہیں آیا کہ ان کے قلب اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو پہلے آسمانی کتاب دی گئی تھی ، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے ، اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اس کی موت کے بعد ۔ ہم نے تمہارے لیے   نشا نیاں بیان کر دی ہیں تاکہ تم سمجھو (ا لحدید ۱۶ – ۱۷)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں پر لمبی مدت (طول الأمد) گزرنے سے افراد کے قلوب میں سختی (قسادت) آجاتی ہے۔ اس سے ان کے اندر باتوں کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کا مادہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہو جائے تو اس وقت کیا کرنا چاہیے  ، اس کو زمین کی مثال کے ذریعہ بتایا گیا ہے۔

جوز مین خراب ہو جائے، اس میں کام کا آغاز فصل بونے سے نہیں کیا جاتا ، بلکہ زمین تیار کرنے سے کیا جاتا ہے۔ ایسی زمین سے پہلے اینٹ پتھر اور جھاڑ جھنکار صاف کیا جاتا ہے۔ اس کو ہموار کیا جاتا ہے۔ اس کی جتائی کر کے اس کو زرخیز بنا یا جاتا ہے ۔ پانی اور کھاد کا انتظام کیا جاتا ہے۔

جب یہ سب کام ہو جائے ، اس وقت زمین پیداوار کے لیے   صالح ہو جاتی ہے۔ اب کسان اس زمین میں بیج ڈالتا ہے۔ جو کسان اس طرح زرعی عمل کرے ، وہی اپنی زمین سے عمدہ فصل حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو کسان زمین کی تیاری سے پہلے اس میں دانہ بکھیر دے ، وہ دانہ بکھیرنے کے باوجود اپنی زمین سے عمدہ فصل حاصل نہ کر سکے گا۔ کیوں کہ عمدہ فصل ہمیشہ تیار کی ہوئی زمین سے اگتی ہے نہ کہ غیر تیار شدہ زمین سے۔

قرآن کی یہ آیت اس بارے   میں قاطع حیثیت رکھتی ہے کہ کسی قوم پر جب تنزل کا دور آجائے تو اس کو دوبارہ اٹھانے کے لیے   کیا کرنا چاہیے  ۔ ایسی حالت میں وہی کرنا چاہیے   جو مردہ (خراب)زمین پر کسان کرتا ہے۔ یعنی فصل بونے سے پہلے زمین تیار کرنا۔

اس قرآنی اصول کی روشنی میں موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے معاملہ کو سمجھئے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمان زوال کا شکار ہوئے۔ ان کی حکومتیں ختم ہو گئیں ۔ قوموں کے درمیان ان کی عظمت باقی نہیں رہی۔ ماضی کے غالب لوگ حال کے مغلوب لوگ بن گئے۔

قرآن کے مذکورہ اصول کے مطابق ، اب مسلمانوں کو دوبارہ اٹھانے کا کام احیاء قلب سے شروع ہو نا چاہیے   تھا نہ کہ احیاءحکومت سے۔مگر موجودہ زمانہ میں جو مسلم رہنما اٹھے ، انھوں نے تقریباً بلا استثنا ء یہ کیا کہ احیا ءحکومت کے نعرہ سے اپنے کام کا آغاز کر دیا ۔ قلب کی سطح پر قوم کو زندہ کرنے کی کوشش انھوں نے نہیں کی۔ ہر ایک نے یہ کیا کہ حکومت کی سطح پر کوشش کر کے قوم کی نشاۃِ ثانیہ  کا خواب دیکھنے لگا۔

خلافت تحریک، آزادی کی تحریک ، تقسیم ملک کی تحریک ، اس کی نمایاں مثالیں ہیں ۔ دوسری تحریکیں بھی کم و بیش اسی خانہ میں جاتی ہیں۔ ان میں نام کے اعتبار سے یا الفاظ کے استعمال کے اعتبار سے بظا ہر فرق نظر آتا ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں۔

اس غلطی کے نتیجہ میں مسلم رہنماؤں کا حال اس معمار کا ہو ا جو ٹوٹے کھمبوں اور بوسیدہ دیواروں کے اوپر چھت  کھڑی کرنے کی کوشش کرے۔ ایسی چھت کبھی قائم نہیں ہوسکتی اور نہ ایسا گھر کبھی بن سکتا۔ ایسے گھر میں تعمیر کا آغاز کھمبوں اور دیواروں کی مضبوطی سے ہوگا نہ کہ چھت کا ڈھانچہ کھڑا کرنے سے۔

ماضی کی اس غلطی کی واحد تلافی یہ ہے کہ غلطی کا اعتراف کیا جائے۔ اور حال میں وہ کام شروع کر دیا جائے جو ماضی میں نہ ہو سکا ۔ یعنی احیا ءحکومت پر نظریں جمانے کے بجائے احیاء قلب پر اپنی ساری طاقت صرف کرنا۔ اس کے سوا  ہر سرگرمی صرف وقت کا ضیاع ہے ، اس کےسوا اور کچھ نہیں۔

اس وقت تمام کاموں سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ مسلمان عمل اور نتیجہ کے فرق کو سمجھیں ۔ اس دنیا میں جب بھی کوئی شخص کسی نتیجہ کو پاتا ہے تو وہ اس کے موافق ضروری عمل کرنے کے بعد اسے پاتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص عمل کو حذف کر کے اچانک اپنے مطلوبہ نتیجہ کو پالے۔ ایسا کبھی کسی کے لیے  نہیں ہوا ، اور نہ آج وہ کسی کے لیے ہو سکتا ہے۔

مزید یہ کہ عمل محض حرکت کا نام نہیں ہے، بلکہ صحیح حرکت کا نام ہے۔ جو نتیجہ مطلوب ہو ، اس کےمطابق ایک درست عمل ہوتا ہے۔ اس درست عمل کو اس کے تمام تقاضوں کے تحت انجام دینا پڑتا ہے اس ابتدائی مرحلہ کو اس کی تمام ضروری شرائط کے ساتھ گزارنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہےکہ آدمی اپنے مطلوب نتیجہ کو پائے۔

ضروری عمل کے بغیر نتیجہ کو پانے کے لیے   دوڑنا ایک بے معنی اچھل کو دہے ۔ اس کا کوئی نتیجہ کسی کے حق میں نکلنے والا نہیں ، خواہ اس نے اپنی اچھل کود کو اسلام کا خوبصورت نام کیوں نہ دے رکھا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom