مقام کیسے ملا
حمزہ بن عبد المطلب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاتھے ۔ ان کے متعلق اسلامی تاریخ میں لکھا گیا کہ حمزہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے ذریعہ اللہ نے دین کو طاقت دی (كَانَ حَمْزَةُ مِمَّن أَعَزَّ اللَّهُ بِهِ الدِّيْنَ) السيرة النبويۃ لابن کثیر، المجلد الاول ، صفحہ ۴۴۶) حضرت حمزہ کو یہ مقام بلاسبب نہیں مل گیا۔ بلکہ وہ ان کے حقیقی عمل کے نتیجہ میں انھیں حاصل ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو آگاہ کرو (الشعراء ۲۱۴) تو آپ نے خصوصی طور پر حمزہ کے سامنے دین ِتوحید کو پیش کیا۔ مگر ان کے ذہن پر باپ دادا کے دین کا اتنا غلبہ تھا کہ ابتداء میں کئی سال تک اسلام کی صداقت ان کی سمجھ میں نہ آسکی ۔ آخر کار نبوت کے چھٹےسال انھوں نے اسلام قبول کیا۔
ایک روز وہ شکار کھیل کر واپس آئے ۔ ان کے ہاتھ میں لوہے کی کمان تھی ۔ عین اس وقت ایک عورت نے آکر ان سے کہا کہ ابھی میں نے صفا پہاڑی کے پاس محمد کو دیکھا ہے، وہاں عمرو بن ہشام (ابو جہل )بھی تھا اور وہ تمہارے بھتیجے کو گالی دے رہا تھا اور بہت زیادہ برا کہہ رہا تھا۔ حمزہ خاندانی غیرت کے تحت گھر سے نکلے۔ کعبہ میں انھوں نے ابو جہل کو پالیا۔ وہ ابھی تک غصہ میں تھے ۔ انھوں نے لوہے کی کمان ابو جہل کے سر پر اتنے زور سے ماری کہ خون نکل آیا۔ انھوں نے ابو جہل سے کہا کہ تم میرے بھتیجے کے دشمن بنے ہوئے ہو ، تو سن لو کہ میرا دین بھی وہی ہے جو محمد کا دین ہے (دِینِی دِیْنُ مُحَمَّدٍ ) ابو جہل کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا اور حمزہ کا تعلق قبیلہ بنو ہاشم سے۔
گھر واپس آئے تو قوم کے کچھ لوگ ان سے ملے ۔ انھوں نے حمزہ کو شرم دلائی کہ تم صابئی (بددین) ہو گئے۔ تم نے اپنے باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ دیا ۔ ایک بھتیجے کی خاطر تم قوم کے تمام اکابر سے کٹ گئے وغیرہ ۔ اس طرح کی باتوں سے حمزہ ذہنی کش مکش میں مبتلا ہو گئے ۔ انھیں شبہ ہونے لگا کہ شاید میں نے خاندانی حمایت کے جوش میں آکر غلطی کر دی ہے۔ وہ رات بھر بے چین رہے ۔ انھیں ساری رات نیند نہیں آئی۔ صبح ہوئی تو اسی بے چینی کے عالم میں خانۂ کعبہ میں گئے۔ وہاں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئےپورے تضرّع اور انابت کے ساتھ دعا کی :
مَا صَنَعْتُ اللَّهُمَّ إنْ كَانَ رُشدًا فَاجْعَل تَصْدِيقُهُ فِي قَلْبِي وَإِلَّا فَاجْعَلْ لِي مِمَّا وَقَعَتُ فِيهِ مَخرَجاً (صفحہ ۴۴۶)میں نے جو کچھ کیا ، اے اللہ اگر وہ ہدایت ہے تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے۔ ورنہ میں جس میں پڑ گیا ہوں اس سے میرے لیے نکلنے کی صورت پیدا فرما ۔
اسی کے ساتھ اگلے دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ۔ انھوں نے آپ سے کہا کہ اے میرے بھتیجے میں ایک معاملہ میں پڑ گیا ہوں ۔ اور اس سے نکلنے کی صورت مجھے نظر نہیں آتی۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ ہدایت ہے یا گمرا ہی ہے۔ اس لیے آپ اس معاملہ میں مجھے بتائیے ۔ اے بھتیجے میں تم سے اس معاملہ میں سننا چاہتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے ان کو نصیحت کی ۔ انھیں خوف دلایا اور ان کو اللہ کے انعام کی خوش خبری دی ۔ اس کے بعد اللہ نے ان کے دل میں یقین ڈال دیا ۔ انھوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صادق ہیں۔ اے میرے بھتیجے ، اپنے دین کا اعلان عام کرو۔ خدا کی قسم، اگر مجھے وہ سب کچھ دیا جائے جس پر آسمان نے سا یہ کیا ہے ، تب بھی میں اس دین کو نہیں چھوڑوں گا (صفحہ ۴۴۶)
اس کے بعد حضرت حمزہ آپ کے مکمل ساتھی بن گئے۔ زمانہ ٔجاہلیت میں وہ ایک دولت مند شخص تھے ۔ اسلام میں آنے کے بعد ان کی دولت ختم ہوئی ۔ انھیں اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کرمدینہ جانا پڑا۔ اسلام کی خاطر انھیں اپنی قوم سے لڑائی لڑنی پڑی۔ یہاں تک کہ احد کی جنگ میں وہ شہید ہو گئے۔ تاہم آخر تک وہ پوری وفاداری کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ رہے۔
یہ وہ عظیم سعادت ہے جو حضرت حمزہ کو حاصل ہوئی۔ تاہم یہ سعادت انھیں سادہ طور پر نہیں مل گئی۔انھوں نے اپنے غیرت کے جذبات کو خدا کے دین کے لیے استعمال کیا ۔ جب شیطان نے ان کے اندر شبہ ڈالا تو انھوں نے اس شبہ کو قبول نہیں کر لیا ، بلکہ اس کے لیے گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کیں ۔ رسول اللہ سے مل کر اس کی وضاحت معلوم کی۔ اور جب بات واضح ہوگئی تو پھر کوئی چیز ان کے لیے اعتراف میں مانع نہیں ہوئی ۔ انھوں نے نہ صرف کھلے دل سےاعتراف کیا بلکہ ہر نقصان اور مصیبت کو برداشت کرتے ہوئے برابر اس پر قائم رہے۔
یہ ہے حضرت حمزہ کی وہ قربانی جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے مسلمان ہر ہفتہ جمعہ کے خطبہ میں "سید الشھداء حمزہ " کہہ کر ان کی دینی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔