طوفانِ قیامت
گلوبل وارمنگ (global warming) موجودہ زمانے میں سب سے بڑا عالمی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کی صورت میں جو متوازن نظام قائم تھا، وہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔سخت اندیشہ ہے کہ جلد ہی وہ وقت آجائے جب کہ زمین پر زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
اِس آنے والے ہول ناک دور کے لیے پیشگی طورپر مختلف قسم کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔ اِن میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کے نتیجے میں اگر ایسا ہو کہ غذا کے لیے استعمال ہونے والی فصلیں زمین کی سطح سے نابود ہوجائیں، تو دوبارہ ان کی کاشت کرکے غذا کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ اِس مقصد کے لیے ناروے (Norway) میں مختلف قسم کے بیجوں (seeds) کا محفوظ گودام بنایاگیاہے۔ اس کا افتتاح 26 فروری 2008 کوکیا گیا۔ اِس تقریب کے موقع پر بڑی بڑی عالمی شخصیتیں وہاں موجود تھیں۔ مثلاً یورپین کمیشن کے پریزڈنٹ یوسے مینول(Jose Manuel Baroso) اور نوبل انعام یافتہ ماہر ماحولیات (environmentalist) وینگر(Wangari Matai)، وغیرہ۔ اِس واقعے کی رپورٹ مختلف اخبارات میں آئی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (26 فر وری 2008) میں یہ رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
‘Doomsday Vault’ Comes to Life
یعنی روزِ قیامت کے لیے حفاظتی گودام تیار ہوگیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ فصلوں کی عمومی تباہی کے اندیشے کی بنا پر ناروے کے جزیرہ (Svalbard) میں ایک پہاڑ کے اوپر عالمی بیج گودام (Global Seed Vault) بنایاگیا ہے۔ یہ مقام قطب شمالی (North Pole) سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ کے اوپر تین وسیع ائرکنڈیشنڈ کمرے (spacious cold chambers) بنائے گئے ہیں۔ اِن حفاظتی کمروں میں دنیا بھر کے دو لاکھ پچاس ہزار قسم کے مختلف بیجوں کے نمونے (samples) رکھے گئے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے ایک عالمی تنظیم (Global Crop Diversity Trust) بنائی گئی ہے۔
مذکورہ خبر مشہور نیوز ایجنسی اے پی ایف (APF) کے حوالے سے میڈیا میں آئی ہے۔ اِس رپورٹ کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ کیاگیا ہے— ناروے کا منصوبہ ہے کہ وہ انسان کے لیے نوح جیسی ایک غذائی کشتی فراہم کرے، تاکہ وہ آنے والی عالمی مصیبت سے اپنے آپ کو بچا سکے:
Longyearbyen (Norway): Aimed at providing mankind with a Noah’s Ark of food in the event of a global catastrophe, and Arctic “Doomsday Vault” filled with samples of important seeds. (p.21)
مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ناروے میں پہاڑ کے اوپر بنائے جانے والے غذائی گودام کو سفینۂ نوح (Noah’s Ark) کے معاملے سے تشبیہہ دینے کے بجائے نوح کے بیٹے کنعان کے معاملے سے تشبیہ دی جائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر نوح کے آخری زمانے میں جب عمومی سیلاب آیا، تو پیغمبر نوح کے باغی بیٹے کنعان نے کہا کہ میں کسی پہاڑ کے اوپر پناہ لے لوں گا، اور وہ مجھ کو سیلاب کی زد سے بچالے گا:
I will be take myself for refuse to a mountain, that shall protect me from the water (11:43).
پیغمبر نوح نے اپنے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کا معاملہ ایک خدائی معاملہ ہے، کوئی پہاڑ تم کو اِس سے نہیں بچا سکتا (ہود: 43)۔ طوفانِ نوح کے بارے میں پیغمبر کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور پیغمبر اور ان کے کچھ ساتھیوں کے سوا کوئی بھی اِس طوفان سے محفوظ نہیں رہا۔ یہی معاملہ آنے والے طوفانِ قیامت کا بھی ہے۔ پہاڑ کی کوئی چوٹی یاکوئی غذائی گودام انسان کو اِس طوفان کی زد سے بچانے والا نہیں۔ آنے والا طوفان موجودہ صورتِ حال کو یک سر بدل دے گا۔ جب یہ طوفان آئے گا، تو کوئی بھی انسان اُس سے اپنا بچاؤ نہ کرسکے گا۔
قدیم زمانے میں انسانی آبادی صرف میسوپٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔ میسوپوٹامیا اُس علاقے کو کہاجاتا ہے جو دریائے دجلہ اور دریائے فُرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں بگاڑ پیدا ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نو ح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ خدا نے ان کو بہت لمبی عمر دی۔ وہ ساڑھے نو سو سال تک لوگوں کے درمیان موجود رہے۔
لمبی مدت تک حضرت نوح کی دعوتی کوششوں کے باوجود صرف چند لوگوں نے خدا کے پیغام کو مانا۔ ان کی بھاری اکثریت انکار اور گم راہی میں پڑی رہی۔ آخر کار حضرت نوح نے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی، تو یہاں ایک بہت بڑا سیلاب آئے گا اور تم سب کے سب لوگ اس میں ہلاک ہوجاؤ گے۔ لوگوں نے حضرت نوح کے اِس انتباہ (warning) کو نظر انداز کردیا۔ آخر کار ایک عظیم سیلاب آیا۔ اِس سیلاب میں یہ پورا آباد علاقہ پانی میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔
یہ قدیم زمانے کا طوفانِ نوح تھا۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب غالباً جلد ہی طوفانِ قیامت آنے والا ہے۔ اِس نئے شدید تر طوفان کی زد میں ساری دنیا آجائے گی، صرف وہ تھوڑے سے لوگ اِس عمومی تباہی سے بچالیے جائیں گے جو بگاڑ میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔
موجودہ زمانہ گویا کہ خدائی نعمتوں کے انفجار (explosion) کا زمانہ تھا، لیکن نعمتوں کی کثرت نے صرف لوگوں کی سرکشی میں اضافہ کیا۔ لوگوں نے اِن نعمتوں کو بھر پور طورپر استعمال کیا، لیکن وہ ہمیشہ سے زیادہ مُنعم سے دور ہوگئے۔ آزادی کے نام پر سرکشی موجودہ زمانے کا عام کلچر بن گیا۔
قدیم طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ، پیغمبر نوح نے دیا تھا۔ جدید طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ ماڈرن سائنس دے رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ساری دنیا کے سائنس داں مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ برف کے بھاری ذخیرے پگھل رہے ہیں۔ گلیشئر کی برف، قطب شمالی (North Pole) اور قطب جنوبی (South Pole) کی برف نہایت تیزی سے پگھل کر سمندروں میں شامل ہو رہی ہے۔
یہ واقعہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change)کے ذریعے ہورہا ہے۔ اِس کو گلوبل وارمنگ (global warming) کہاجاتاہے۔ برفانی پہاڑوں کے پگھلنے سے مسلسل سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2050 تک یہ تبدیلی اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گی۔ یہ ایک شدید تر قسم کا نیا طوفانِ نوح ہوگا اور دنیا کی تمام آبادی اس کی زد میں آکر ختم ہوجائے گی۔ صرف تھوڑے سے لوگ بچیں گے جو موجودہ زمانے کے عمومی بگاڑ سے محفوظ تھے۔
پیغمبر نے یہ خبر دی تھی کہ زمین پر انسان کی آبادی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی نہیں رہے گی۔ وہ وقت آئے گا جب کہ موجودہ آباد دنیا کا خاتمہ کردیا جائے گا، اور پھر ایک نئی دنیا بنے گی جس میں تمام سرکشوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور خدا کے وفادار بندوں کو الگ کرکے اُنھیں ابدی جنتوں میں بسا دیا جائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میں کہا تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ انسان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے (أنا والساعۃ کہاتین، صحیح البخاری، کتاب الرقاق) گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ (phenomenon) بتاتا ہے کہ یہ فاصلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ جدید سائنس جس موسمیاتی تبدیلی (clamatic change) کی خبر دے رہی ہے، وہ تبدیلی سائنس دانوں کے بیان کے مطابق، اب اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کو دوبارہ الٹی طرف لوٹانا ممکن نہیں۔
جو واقعہ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا۔جو دن آنے والا تھا، وہ دن بہت قریب آگیا۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔ وہ خدا کے خلاف سرکشی کا طریقہ چھوڑ کر خدا کے ساتھ وفاداری کا طریقہ اختیار کرے۔ حالات کی یہ خاموش پکار ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست کرلے، اِس سے پہلے کہ اپنے آپ کو درست کرنے کا موقع اس کے لیے باقی نہ رہے۔